|

وقتِ اشاعت :   January 31 – 2016

بلوچستان اور اس کے عوام کا یہ جائز مطالبہ ہے کہ ان کو ضرورت کے مطابق بجلی دیں اور صرف اضافی بجلی دوسرے صوبوں کو فروخت کریں۔ بلوچستان موجودہ وقت میں 2250میگاواٹ بجلی پیدا کررہا ہے مگر اس کو صرف 600میگاواٹ بجلی فراہم کی جارہی ہے۔ جبکہ بلوچستان کی موجودہ ضروریات تقریباً 1600میگاواٹ ہے اور زائد بجلی دوسرے صوبوں کو فراہم کی جارہی ہے۔ اس کا جواز یہ بتایا گیا ہے کہ بلوچستان کی موجودہ ٹرانسمیشن لائن کی گنجائش صرف 600میگاواٹ ہے اور اس سے زیادہ بجلی لے جانے کا بوجھ برداشت نہیں کرتی۔ لہٰذا اضافی بجلی دوسرے صوبوں کو یا قومی گرڈ کو فراہم کی جارہی ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت نے بلوچستان کے ٹرانسمیشن لائن پر گزشتہ 67سالوں میں کتنی سرمایہ کاری کی ہے۔ یہ سرمایہ کاری کب سے بند ہے اور اس پر کوئی اخراجات کب سے نہیں کیے گئے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ایسا جان بوجھ کر نہیں کیا گیا تاکہ بلوچستان کا حصہ صرف اور صرف 600میگاواٹ رہے اور اس میں اضافہ نہ ہو تاکہ بلوچستان اور اس کے عوام کو جان بوجھ کر پسماندہ اور غریب تر رکھا جائے ۔کوئی آدمی بلوچستان میں صنعت قائم کرنے یا مائننگ انڈسٹری میں سرمایہ کاری کا سوچ ہی نہ سکے اگر بلوچستان میں بجلی ہوتی تو سیندھک کے منصوبے کے لئے 40میگاواٹ کا الگ سے بجلی گھر نہ بنانا پڑتا، اس کی لاگت کم ہوتی منافع زیادہ۔ بلوچستان میں بجلی کا اصراف صرف اس لئے کم ترین ہے کہ وہاں پر ٹرانسمیشن لائن نہیں ہے۔ پورا بلوچستان دوسرے صوبوں کی طرح قومی گرڈ سے منسلک نہیں ہے آدھے سے زیادہ بلوچستان میں بجلی صرف اس وجہ سے نہیں ہے کہ وفاقی حکومت نے 67سالوں سے ٹرانسمیشن لائن تعمیر کرکے نہیں دیئے۔ مکران اور رخشان کے خطے میں قومی گرڈ کا وجود نہیں ہے، یہ خطہ بنگلہ دیش سے بڑا اور سندھ کے برابر ہے جہاں پر بجلی کی سہولیات نہیں ہیں۔ گزشتہ 67سالوں سے کوئی منصوبہ نہیں بنایا گیا کہ مکران اور رخشان خصوصاً خاران اور چاغی کو قومی گرڈ سے ملایا جائے ۔سندھک پروجیکٹ نے کارپوریٹ ذمہ داری کے تحت کیسکو کو مطلوبہ رقم فراہم کردی ہے تاکہ نوکنڈی کے علاقے کو قومی گرڈ سے منسلک کیا جائے۔ ایسی صورت میں ایران سے بجلی خریدی جاسکتی ہے ایران 6امریکی سینٹ فی یونٹ بجلی پاکستان کو فروخت کرنے کو تیار ہے جبکہ پاکستان میں فی یونٹ بجلی کی لاگت 12امریکی سینٹ ہے۔ یعنی آدھی قیمت پر بجلی مل رہی ہے لیکن کیا کیا جائے یہ تاجروں کی حکومت ہے اور وہ بلوچستان کے لئے آدھی قیمت پر بجلی خریدنے کو تیار نہیں کیونکہ اس سے بلوچ سرزمین کو فائدہ ہوگا۔ اگر بلوچستان پسماندہ رہا جو آدھا پاکستان ہے تو بقیہ پاکستان بھی ترقی یافتہ نہیں کہلائے گا وہ بھی پسماندہ ہی تصور ہوگا۔ ہم تمام سیاسی پارٹیوں اور اس کے رہنماؤں سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ بلوچستان میں قومی گرڈ کے تعمیر کے مسئلے کو وفاقی پارلیمان میں زبردست طریقے سے اٹھائیں اور جھوٹے حکومت کو گھر پہنچائیں تاکہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں بلوچستان کو قومی گرڈ سے ملانے اور بلوچستان کے تمام خطوں کو ان سے منسلک کرنے کا کام ایک ہی سال یعنی آئندہ مالی سال میں مکمل ہو تاکہ بلوچستان کو ایران سے آدھی قیمت پر بجلی ملے یا ہم آدھی قیمت پر ایران سے بجلی خریدلیں۔ یہی مسئلہ زیادہ تیز اور تند طریقے سے بلوچستان اسمبلی میں اٹھایا جائے تاکہ بلوچستان کے ہر خطے کو بجلی ملے تاکہ وہ معاشی ترقی کے دوڑ میں شامل ہو۔