چاغی میں قحط سالی نے ایک مرتبہ پھر ڈیرے ڈال دیئے جس کے سبب 8 ہزار سے زائد خواتین و بچے غذائی قلت کا شکار ہوگئے جبکہ40 فیصد سے زائد زرعی زمینیں بنجر ہوئیں اور چراگاہیں ختم ہونے سے91 فیصد سے زائد گھرانوں کے مال مویشی شدید متاثر ہوکر موت کے منہ میں جانے لگے ۔ اکثر علاقوں میں پانی کی سطح دس فٹ تک نیچے گر گئی جس کے سبب کئی دیہات ویران ہوگئے اورعلاقہ مکین پانی کی تلاش میں کئی کئی سو کلومیٹر دور جاکر بسنے لگے۔غیر سرکاری ادارے اسلامک ریلیف پاکستان کی جانب سے کروائے جانے والے سروے میں اس بات کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اگر بارشیں نہ ہوئیں تو دو سال میں چاغی دوبارہ 1997جیسی صورتحال کا سامنا کرسکتا ہے جب 9 سالوں تک علاقے میں مسلسل قحط نے آفت ڈھادی تھی۔ چاغی کے 11 میں سے 6 متاثرہ یونین کونسلز پدگ، چلغازی، چاغی، صدر، جھلی اور آمری کے 50 دیہاتوں میں کرائے جانے والے جامع سروے کے فوکل پرسن اور اسلامک ریلیف چاغی کے ڈیزاسٹر رسک ریڈکشن آفیسر محمد بلال کے مطابق چاغی قحط سالی کے حوالے سے ہائی رسک ایریا ہے کیونکہ یہاں سالانہ بارشوں کی اوسط7.5 ملی میٹر ہے جو کہ انتہائی ناکافی ہے جبکہ اس علاقے میں سالانہ کم سے کم 170 ملی میٹر بارش ہونی چاہیے جو کہ 2012 سے نہیں ہو رہی ہے۔ان کے مطابق مقامی لوگوں نے روایتی طریقوں سے بھی قحط سالی کے اثرات کی تصدیق کی جبکہ ڈیڑھ مہینے سے زائد عرصے کی سروے کے دوران فوکس گروپ ڈسکشن کے تحت ہر دیہات میں 15 سے 20 لوگوں سے مل کر بات کرنے اور علاقے کا تفصیلی معائنہ کرنے کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ تین سالوں کے دوران پانی کی اوسط سطح 3.5 فٹ نیچے چلی گئی جبکہ آمری اور جھلی کے کئی دیہاتوں میں پانی کے بیشتر ذرائع مکمل طور پر خشک ہوگئے جہاں کے اکثر علاقوں میں پانی کی سطح پانچ سے دس فٹ تک نیچے چلی گئی ہے جس کے سبب خواتین اور بچوں کی مشکلات بڑھ گئیں کیونکہ پانی کے ذرائع ناپید ہونے سے خواتین اور بچوں کو دور دراز مقامات سے اپنے جسموں پر پانی لاد کرلانا پڑتا رہا ہے جبکہ مضرصحت پانی کے استعمال سے وہاں مختلف وبائی بیماریاں بھی پھیلنی لگیں کیونکہ ان علاقوں میں پینے کے پانی کی کوئی متبادل ذرائع نہ ہونے کے سبب 42 فیصد گھرانے جوہڑوں کے آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں جس کی وجہ سے وبائی اور جلد کے امراض بڑھ گئے ہیں جبکہ دوسری جانب ان علاقوں میں صحت کی سہولیات کا بھی شدید فقدان ہے جس کی وجہ سے لوگ طویل سفر طے کرکے شہروں میں اپنا علاج کروانے پر مجبور ہیں۔ان کے مطابق ایران اور افغانستان کی سرحدوں سے متصل 44 ہزار سے زائد اسکوائر کلومیٹر کے رقبے اور منتشر آبادیوں پر مشتمل ضلع چاغی میں قحط سالی کے سبب 80 فیصد مال مویشی شدید متاثر ہوگئے جن میں اکثر طبعی موت مرگئے جبکہ باقی رہنے والوں کی پیداواری صلاحیت کم ہوگئی جس کے سبب لوگ انھیں انتہائی سستے داموں فروخت کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں طویل خشک سالی سے 40.8 فیصد زرعی زمینیں بنجر بن گئیں جن پرزیادہ تر تربوز، خربوز اور گندم سمیت دیگر موسمی فصلات کاشت کی جاتی تھیں اس تمام صورتحال سے 78 فیصد گھرانوں کے لیئے دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل ہوگیا اور اس صورتحال نے مذکورہ علاقوں کے 8 ہزار سے زائد خواتین اور بچوں کو شدید غذائی قلت سے دوچار کیا ۔ محمد بلال کے مطابق قحط سالی سے تنگ 15.5 فیصدپانی کی آسان ذرائع پانے کے لیئے 10 سے 400 کلومیٹر دور منتقل ہونے پر مجبور ہوگئے جن میں کچھ لوگ قریبی اضلاع خاران اور واشک چلے گئے جس کے سبب کئی دیہات ویران ہوگئے۔
اسلاملک ریلیف چاغی کے کوآرڈینیٹر عیسیٰ طاہر بلوچ کے مطابق اسلامک ریلیف نے صورتحال سے نمٹنے اور لوگوں کو ممکنہ آفت کے لیئے تیار رکھنے کی خاطرموسمیات کی پیشنگوئی کرنے والے پیشگی اطلاعی نظام اور پانی اسٹور کرنے کے لیئے زمینی واٹر ریزرور بنائے ہیں لیکن یہ حکومت اور متعلقہ اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے وہاں لوگوں کی مدد کو پہنچیں اور انھیں خوراک، ادویات و دیگر مطلوبہ سہولیات سمیت شعور و آگاہی فراہم کرکے قحط سالی کی نقصانات کو کم کرنے کی کوشش کریں۔
چاغی میں محکمہ حیوانات کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر سعید احمد صاحبزادہ کے مطابق قحط سالی نے علاقے میں ایک لاکھ سے زائد مویشیوں کی زندگیاں شدید خطرات سے دوچار کیں ہیں جن میں اونٹ، بھیڑبکریاں اور گائے شامل ہیں جو پیٹ بند ہونے،انتڑیوں میں زہر بھر جانے اور جلد کی موذی امراض میں مبتلا ہورہے ہیں کیونکہ ان کی قوت مدافعت ختم ہوتی جارہی ہے جس کی سب سے بڑی وجہ قدرتی چراگاہوں کا ختم ہونا ہے۔ ان کے مطابق ان کے محکمے نے متاثرہ علاقوں میں چھ ماہ کے دوران پانچ طبی کیمپ لگائے جس کے دوران 90 ہزار سے زائد مویشیوں کی ویکسینیشن کرائی گئی اور مالداروں کو ادویات فراہم کیا گیا۔ انہوں نے محکمے کی طرف سے مطلوبہ ادویات فراہم نہ کرنے کو سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکام بالا کو صورتحال سے آگاہ کیا گیا ہے۔
فوڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن چاغی کے ٹیم لیڈر عتیق احمد بلوچ کے مطابق خشک سالی کے سبب چاغی میں فصلوں میں کیڑے پڑ رہے ہیں جس نے زمینداروں کی مشکلات میں اضافہ کیا۔ ان کے مطابق بارشیں نہ ہونے سے کاریزات خشک ہوگئے ہیں جبکہ ایسی صورتحال سے نمٹنے کے لیئے ڈیمز چاہیے جو نہ ہونے کے برابر ہیں۔ان کے مطابق وہ پچھلے تین سالوں سے چاغی کے زمینداروں اور مالداروں کو تربیت، بیج اور متعلقہ سہولیات فراہم کر رہے ہیں تاکہ وہ تکنیکی اور آسان طریقوں سے اپنے ذریعہ معاش کو وسعت دے سکیں۔
ڈپٹی کمشنر چاغی خدائے نذر بڑیچ نے صورتحال کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے 02 دسمبر2015 کوایک مراسلے کے ذریعے پراونشل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کو صورتحال سے آگاہ کرتے ہو ئے ضروری اقدامات اٹھانے کی درخواست کی لیکن تاحال کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ان کے مطابق انہوں نے تمام انتظامی اور زراعت و حیوانات کے حکام کو حکم جاری کیا ہے کہ وہ اس سلسلے میں جامع سروے کرکے رپورٹ پیش کریں تاکہ اصل صورتحال سامنے آسکے۔
چاغی میں قحط سالی نے سنگین صورتحال اختیار کرلی
وقتِ اشاعت : January 31 – 2016