سبی: جماعت اسلامی بلوچستان کے صوبائی امیر مولانا عبدالحق ہاشمی نے کہا ہے کہ بلوچستان عالمی معاشی جنگ کا محور بن چکا ہے،اقتصادی راہداری دنیا کی شاطر قوتوں کے گلے میں ہڈی کی طرح پھنس چکی ہے،جہاد کے نام پر داعش کا وجود خوف کی علامت بن چکا ہے ،خوف کے سائے میں رہتے ہوئے تعلیمی اداروں کی بندش حکمرانوں کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے،صوبے میں قومی زبانوں پر مشتمل نصاب کاقیام قوموں کی تقسیم کا فارمولا ہے،کشمیر ڈئے منانے والے حکمران ہندوستانی حکمرانوں کے ساتھ بغل گیری چھوڑ دیں،بڑھتی ہوئی بدامنی کو روکنے کے لیے مثبت پالیسیوں کواخذ کرنا ناگزیر ہے،ان خیالات کا اظہار انہوں نے سبی میں جماعت اسلامی کے ضلعی امیر میر مظفرنذرابڑو کی رہائش گاہ پر جماعت اسلامی کے صوبائی جنرل سیکرٹری مولانا ہدایت الرحمن بلوچ کے ہمراہ میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کیا اس موقع پر میر مظفرنذر ابڑو،گل محمد بلوچ،میر مدثر نذر ابڑو و دیگر بھی موجود تھے،انہوں نے کہا کہ دنیا میں معیشت کی جنگ لڑی جارہی ہے جس کی وجہ سے دنیا کا امن و امان طاقتور قوتوں نے بگاڑ کر رکھ دیا ہے ،پاک چین اقتصادی راہداری سے پاکستان کی جی ڈی پی میں 170%کااضافہ ہوگا جس سے یقیناًملک کی معیشت سنبھل سکے گی انہوں نے کہا کہ بلوچستان اس وقت اقتصادی جنگ کا محور بن چکا ہے اور طاغوتی اور شاطر قوتیں صوبے میں بدامنی پھیلا نے سمیت یہاں کے عوام کو ایک سازش کے تحت پسماندہ رکھ رہی ہیں جبکہ یہاں کے قبائل کو آپس میں دست وگریباں کرکے کمزوریاں پیدا کی جارہی ہیں ،جبکہ موجودہ حالات میں ملک اور صوبے کے عوام پر خوف کا غول طاری کردیا گیا ہے تاکہ معاشی اعتبار سے ہمیں کمزور بنایا جاسکے،انہوں نے کہا کہ اقتصادی راہداری کے روٹس میں ممکنہ تبدیلیوں کے باعث بلوچستان اور وفاق کے درمیان مزید دوریاں پیدا کی جارہی ہیں جو حکمرانوں کی نااہلی و کمزوری کی عکاسی کرتا ہے انہوں نے کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری پاکستان مخالف قوتوں کے گلے میں ہڈی کی طرح پھنس چکی ہے ،حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ ایسی پالیسیاں مرتب کریں جس سے بدامنی کا خاتمہ ممکن ہوسکے اورپرامن ماحول میں ملک کی معیشت کا پہیہ چلایا جاسکے،انہوں نے کہا کہ جہاد انتہائی حساس معاملہ ہے جس کا فتویٰ کو فرد یا پھر گروہ نہیں دئے سکتا ہے بلکہ یہ ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے ،جہاد کے نام پر داعش کا وجود خوف کی علامت ہے ،جبکہ خوف کے سائے میں رہتے ہوئے تعلیمی اداروں کی بندش کسی لمحہ فکریہ سے کم نہیں ہے ،انہوں نے کہا کہ ایران سے اقتصادی پاپندیوں کے خاتمہ کے بعد پاکستان گیس پائپ لائن ،بجلی کے منصوبوں کو عملی جامعہ پہنا کر عمل درآمد کو یقینی بنائے،انمہوں نے مزید کہا کہ ہم مقامی زبانوں کی ترقی و ترویج کے مخالف نہیں لیکن ایک ہی صوبے میں پانچ پانچ زبانوں پر مشتمل تعلیمی نصاب صوبے کی اقوام کو مزید تقسیم کرنے کا فارمولا ہے،بلوچستان کثیر الاقومی صوبہ ہے جہاں پر تمام قوموں کو اتحاد و یگانگت کی ایک ہی لڑی میں پرونے کی ضرورت ہے تاکہ ہم ترقی و خوشحالی کے زینوں کو چھو سکیں۔