|

وقتِ اشاعت :   February 6 – 2016

شہر کیوں اجڑتے ہیں۔۔۔؟اگرچہ اس سوال کا جواب آثارِ قدیمہ کے ماہرین سے ہی لیا جانا چاہیے،کہ وہی اس کی صحیح تشریح و توضیح کر سکتے ہیں۔ مگر چوں کہ یہ سوال میرے شہر کے معاملا ت اور مسائل سے میل کھاتا ہے۔ اس لیے اس کا جواب تلاش کرنا ہمارا فرض بنتاہے ۔ آج جب میرے شہر کا حسن گہنا رہا ہے ،اس کے لبوں کی لالی اور رخسار کا غازہ اترنے کو ہے۔اس سوال کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے ۔اپنے شہر کی یہ حالت دیکھ کر باربارقلب و ذہن میںیہی سوال اُٹھتا ہے کہ، شہر کیوں اُجڑتے ہیں؟اصولی طور پر اس سوال کا موزوں جواب تو شہر کے باسی ہی دے سکتے ہیں ۔کیوں کہ مکان کی خستہ حالی کی صحیح خبر اس کے مکینوں کو ہی ہو سکتی ہے۔ کھیت کے اُجاڑ کا سبب کسان ہی بہتر طور پرجان سکتاہے۔جب کہ باغ کوویرانی سے بچانے کی درست رہنمائی مالی سے زیادہ کوئی بھی نہیں کر سکتا۔ویسے ہی دیگر عوام کی طرح میں بھی اسی شہر کا باسی ہوں،شہر کے مسائل پر غور و فکر کرنے کی میری بھی ذمہ داری بنتی ہے ۔یہ اپنی جگہ درست ہے کہ شہر کے اُجاڑ پن کے اور بھی کئی عوامل ہو سکتے ہیں۔لیکن یہاں ہم صرف اُن مسائل کا ذکر کریں گے جن سے عوام کی روزمرہ زندگی اور شہر کی خوب صورتی متاثر ہوتی ہے۔ آج جب میرے شہر کے چہرے پر بے پایاں پھوڑے نکل آئے ہیں، اور ان سے پیپ بہنے لگی ہے تومسئلہ صرف اس موذی مرض سے متعلق آگاہی حاصل کرنے سے حل نہیں ہوگا بلکہ مرض کی تشخیص کے لیے مسیحاکی نظرِ عنایت بھی لازمی ہے۔مگر یہ تو تب ہوتا ہے،جب شہر کے عوام اپنی ذمہ داری بہ خوبی نبھا رہے ہوں ،اور شہر میں کوئی مسیحا بھی ہو،جو مسائل کے حل اور تدارک کے لیے اپنا کردار ادا کر ے۔ سیانے کہتے ہیں کہ جب قحط الرجال حد سے بڑھ جائے تو لوگوں پرجمود کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔میرے شہر کے ساتھ بھی یہی مسئلہ درپیش ہے۔چنانچہ یہ مسئلہ صرف شہر کے اجاڑ سے متعلق جانکاری سے حل نہیں ہو سکتا ،بلکہ مجھے اصل شکایت شہر کے باسیوں سے ہے جنہوں نے شہر کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر چپ سادھ رکھی ہے۔ گلہ والیانِ شہر سے بھی ہے،جو اِس شہر کو اپنا تو کہتے ہیں مگر آج تک وہ خود اِس شہر کے نہیں ہو پائے کہ، شہر کا ہونا بھی اپنے شہر کے لیے کچھ کردکھانے کا تقاضا کرتا ہے۔ عوا م کی مجرمانہ خاموشی اور منتخب نمائندوں کی عدم توجہ کے سبب ،لٹل پیرس بننے کے خواب رکھتا میرا یہ البیلا شہر اوستا محمد، ہنوز ترقی یافتہ شہروں کی دوڑمیں شامل ہونے سے کوسوں دور ہے۔ آج جب میں ،مختلف مسائل کی آماج گاہ بنے اوستا محمد شہر پر کچھ لکھنے بیٹھا ہوں، مجھے سندھ اور بلوچستان کے سنگم پر واقع،اس شہر کی حالتِ زار پہ رونا آرہا ہے۔ ذرا سوچو تو، کیا کچھ نہیں ہے یہاں؛ سونا اُگلتی زرخیز زمین اور صنعتی وسائل سے مالا مال یہ شہر،اپنے جوبن اور خوب صورتی کے لحاظ سے ہی نہیں ، جغرافیائی اعتبار سے بھی بہت بڑی اہمیت کا حا مل ہے ۔زرعی لحاظ سے شہر کے چاروں جانب لاکھوں ایکڑ اِراضی پر پھیلاہوا رقبہ ،پورے صوبے میں گرین بیلٹ کے طور پر جاناجاتا ہے۔یہاں گندم ،چاول ، سرسوں اور دیگر کئی قسم کی فصلیں کاشت ہوتی ہیں۔سو سے زائد چاول کے کارخانوں کے سبب،صوبے کا دوسرابڑاصنعتی زون سمجھا جانے والا یہ شہر،سیاسی اعتبار سے بھی کافی زرخیز دکھائی دیتا ہے۔ کہنے کو تو اوستا محمد شہر، اوستا قبیلہ کے نام سے منسوب ہے،مگر عملاً اس شہر پر جمالی قبیلے کی عمل داری رہی ہے۔خاندانی شرافت اور سماجی تعلق داری میں مثالی شناخت رکھتے اس خاندان کو، قبائلی اورسیاسی اعتبار سے حلقے میں نمایاں مقام حاصل ہے۔جمالیوں کے سیاسی قد کاٹھ کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ شہر کے چیئرمین سے لے کر ڈپٹی چیئرمین سینیٹ اورملک کی وزارتِ عظمیٰ کامنصب بھی اس خاندان کے زیرِ نگین رہا ہے۔ان کی سیاسی عظمت اورخاندانی وجاہت بجا،مگر عام آدمی کو اس سے کیا لینادیناکہ اُسے تو بس اپنے اورشہر کے معاملات اور مسائل کا حل چاہیے ۔ شہر کی آبادی کو مدِ نظر رکھا جائے تو بھی اوستا محمد ،ضلع جعفرآباد کا سب سے بڑا اور گنجان آباد شہر ہے۔ سیاسی ،سماجی،علمی اورادبی لحاظ سے بھی اوستا محمد اپنی الگ اور نمایاں پہچان رکھتا ہے۔مگر کیا کیا جائے کہ جب لوگوں کاسیاسی شعور قوم،برادری سے بھی کہیں نیچے آکراپنی ذات پر مرکوز ہو جائے۔جب ذاتی مفادات کو اجتماعی معاملات پرفوقیت دی جائے ،تو انسانی سوچ سکڑ جاتی ہے ۔تب پورا سماج شعوری طور پر بانجھ ہو جاتاہے ۔معاشرہ ،اخلاقی پستی اور سماجی تنزلی کا شکار ہو جاتا ہے۔ ایسی صورت میں قومیں سرخرو ہونے کے بجائے، جمود و تعطل کا شکار ہو کر خزاں رسیدہ پتوں کی طرح ٹوٹ کربکھر جاتی ہیں ۔آج اگر ہم اپنی ذات کا جائزہ لیں تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہمارا حال بھی و یسا ہی ہے،جیسا مندرجہ بالا سطور میں بیان ہو چکا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے مسائل کے حل اور حقوق کے حصول میں ناکام ہو چکے ہیں۔ ہمارے لیے شہر کی ترقی اور عوامی فلاح کے تمام راستے مسدود ہو تے جا رہے ہیں۔میٹرو پولیٹن سٹی کی حیثیت رکھتے اس شہر کی حالت اُس یتیم اور بے آسرا بچے جیسی ہو چکی ہے ،جو والدین کے ہوتے ہوئے بھی اُن کی شفقت اور سر پرستی سے محروم ہو۔اس وقت نکاسی آب کی وجہ سے پورا شہر دگرگوں حالات سے دو چار ہے۔کروڑوں کی لاگت سے بننے والا سیوریج کا نظام عدم تکمیل کے سبب شہر کے عوام کے لیے عفریت بن چکا ہے۔شہر کے گلی،محلوں میں بڑے نالے تو بنائے گئے ،لیکن بد قسمتی سے انہیں مکمل نہیں کیا جا سکا ۔ چنانچہ پانی کو راستہ نہ ملنے کی وجہ سے ،یہ نالے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکے ہیں۔ سیوریج کے گندے پانی کا اخراج نہ ہونے سے شہر کی مختلف گلیوں میں جگہ ،جگہ پانی کے جوہڑ بن چکے ہیں۔اب توبعض اہم شاہراہیں بھی گندے پانی کی زد میں آ گئی ہیں۔یہ تو شہری مسائل کا محض ایک پہلو ہے ،جسے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ہم کہاں جا رہے ہیں۔ دنیا میں ہونے والی ترقی اور ہمارا یہ چلن،ہماری پسماندگی کی نشان دہی کرتا ہے۔ اگر اب بھی ان مسائل پر توجہ نہیں دی گئی اور اس کا سدِباب نہ ہوا تو گندگی ، تعفن اور بیماریاں ہمارا مقدر بن جائیں گی۔ آج جب میں صفائی ستھرائی کے حوالے سے شہر کی ابتر صو رت حال پر لکھنے بیٹھا ہوں،میرا دل بیٹھ رہا ہے۔ایسالگتا ہے کہ میرے شہر کا حسن گُہنا رہا ہے۔اس کے لبوں کی لالی اوررخسار کا غازہ اترنے کو ہے۔لہٰذاہمیں یہ مت بھولنا چاہیے کہ یہ ہمارا اپنا شہر ہے، ہمارے اجداد کا ،ہماری آنے والی نسلوں کی پرورش کا مسکن یہی ہے۔اس سے بھی بڑھ کر یہ شہر یہاں کے سیاسی زُعما کا بھی ہے ۔ شہر کی بگڑتی ہوئی حالت کاتقاضا یہ ہے کہ، اب اوستا محمد شہر اپنے باسیوں اور اس حلقے کے منتخب نمائندوں کی فوری توجہ چاہتا ہے۔اس لیے بھی کہ صفائی نصف ایمان ہے ۔اپنے نصف ایمان کی حفاظت کی خاطر ہی سہی ،ہم سب مل کر اسے صاف ستھرا رکھ سکتے ہیں ۔ اس کے حسن کو واپس لاکر اسے مزید اجڑنے سے بچا سکتے ہیں ۔یہی ہم سب کی ذمہ داری،اور ہمارا فرض ہے۔