|

وقتِ اشاعت :   February 6 – 2016

چھیالیس 46 ارب ڈالر کی خطیر رقم سے بننے والی چین پاکستان اقتصادی راہ داری (CPEC) کو حکومتِ وقت نہ صرف پاکستان بلکہ خطّے کے لیے ایک گیم چینجر قرار دے رہی ہے وفاقی وزیرمنصوبہ بندی جناب احسن اقبال کے مطابق چائنا پاکستان اقتصادی راہ داری محض ایک سڑک کا نام نہیں بلکہ یہ متعدد پروجیکٹس کا مجموعہ ہے جس میں پینتیس 35 ارب ڈالر توانائی کے منصوبوں اور 11 ارب ڈالر اقتصادی راہ داری اور صنعتی زونز پر خرچ کئیے جائینگے۔اقتصادی راہ داری جن جن بڑے شہروں سے گزرے گی وہاں صنعتی زونز قائم کیئے جائینگے۔ سی پیک کے تمام پروجیکٹس 2030 تک پایہ تکمیل کو پہُنچیں گے۔ سی پیک کے حوالے سے اب تک کئی آل پارٹیز کانفرنسز کا انعقادہو چکا ہے مگراب بھی ملک کی تمام سیاسی پارٹیاں اِس حوالے سے مُطمئن نظر نہیں آتیں۔ خصوصاً KPK اور بلوچستان کی سیاسی قیادت رُوزِ اوّل سے یہ مطالبہ کرتی چلی آرہی ہیں کہ اِن صُوبوں کے پسماندہ رہ جانے کی وجہ سے اقتصادی راہ داری کی مغربی روٹ کو نہ صرف ترجیحی بنیادوں پر مُکمل کیا جائے بلکہ اِن علاقوں میں اقتصادی زونز کی بھی نشاندھی کی جائے۔ حکومت اور اپوزیشن پارٹیوں کی اِس چپقلش میں جو علاقہ سی پیک کا سرچشمہ ہے اور جہاں مغربی، وسطی اورمشرقی تمام روٹس جا کے ملتے ہیں یعنی گوادر شہر۔ یہاں کے لوگوں کا کوئی پُرسانِ حال نہیں۔ سی پیک کے گوادر کی مقامی آبادی پر کیا اثرات پڑینگے؟ اُن کے روزگار کا تحفّظ اوراُن کے سماجی و معاشی ترقی کے لیئے حکومت کون سے منصوبے بنا رہی ہے؟ اِس سلسلے میں نہ صرف ابہام پایا جاتا ہے بلکہ اہلِ اقتدار خاموش ہیں۔ سی پیک کے پروجیکٹس کا جائزہ لیا جائے تو اِس میں گوادر اور اِس کے گردونواح کے لوگوں کی سماجی و معاشی (Socio-Economic) ترقی کے لیئے کوئی خاص پروجیکٹ نہیں ہے۔حکومتی ذرائع کہتے ہیں کہ گوادر میں انٹرنیشنل معیار کی ایک ائر پورٹ بنائی جائے گی، تین سو 300 میگاواٹ پر مشتمل کوئلہ سے بجلی پیدا کرنے والا پلانٹ لگایاجائے گا جس سے فری اقتصادی زون مُستفید ہوگا۔ مزید براں اِیسٹرن ایکسپریس وے اور ویسٹ بے میں بھی ایک سڑک بنائی جائے گی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اِن پروجیکٹس کے نتیجے میں مقامی لوگوں کی سماجی و معاشی زندگی میں کوئی مثبت تبدیلی آئے گی؟ مقامی آبادی کا خیال ہے کہ اِن پروجیکٹس کے نتیجے میں مائیگیر ، بوٹ بلڈرز اور دکانداروں کا روزگا ر متاثر ہونے کا خدشہ ہے جب کہ اُنھیں متبادل روزگار کی فراہمی کا اب تک کوئی ٹھوس منصوبہ بھی پیش نہیں کیا گیا ہے۔ میرے خیال میں سی پیک ایک بہت بڑا پروجیکٹ ہے اور عموماً پاکستان اور خصوصاً گوادر پر اِس کے دُور رس اثرات مُرتب ہُونگے۔ آنے والے دنوں میں گوادر کا سماجی ، معاشی اور ثقافتی منظر نامہ بدلنے والا ہے۔ گوادر کی موجودہ افرادی قوت اور انسانی وسائل کی استعداد کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہم یہ بات وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ اگر حکومت نے مقامی لوگوں کی سماجی و معاشی بہتری کے لیئے ترقیاتی منصوبوں کا آغاز نہیں کیا اور اُنھیں متبادل روزگار اور رہائشی سہولتیں فراہم نہیں کیں تو یقیناًمقامی آبادی کا مُستقبل داؤ پہ لگ سکتا ہے اور آنے والے دنوں میں مقامی لوگوں کے لیئے معاشی و سماجی چیلنجز کا مقابلہ کرنا محض ایک خواب بن کر رہ جائیگا۔ اِس وقت گوادر شہر کی آبادی بمشکل ایک لاکھ ہے جن میں اکثریت غیر ہنر مند افراد کی ہے۔ یہاں شرحِ خواندگی محض چالیس (40) فیصد کے لگ بھگ ہے جبکہ حکومتی ذرائع کہتے ہیں کہ مُستقبل میں پورٹ اور فری اکنامک زون کو چلانے کے لیئے لاکھوں ہنر مند افراد کی ضرورت ہوگی۔ گوادر میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور پرفیشنل افراد کی کمی ہے۔ اِس وقت صورتحال یہ ہے کہ شہر میں صرف ایک گورنمنٹ ڈگری کالج ہے جس میں طلبہ و طالبات کی تعداد پندرہ سو کے لگ بھگ ہے مگر کالج اہم مضامین کے لیکچرارسے محروم ہے۔جبکہ شہرمیں گرلز کالج کاسرے سے وجود ہی نہیں۔ اِس کے علاوہ شہر میں آٹھ سرکاری ہائی اسکولز ، چار پرائیوٹ اور تین نیم سرکاری و کمیونٹی ھائی اسکولز مقامی طلبہ وطلبات کے علم کی پیاس بجھانے میں مصروف ہیں۔ شہر کے تمام سرکاری تعلیمی اداروں میں ماسوائے ڈگری کالج کے کُل سات ہزار تین سو ستتر (7377) طلباء تعلیم حاصل کر رہے ہیں جبکہ شہرکے پرائیوٹ اسکولز میں بھی چھ ہزار کے لگ بھگ طلبہ و طلبات علم کے چراغ سے منور ہو رہے ہیں لیکن اِن اعدادوشُمار کے باوجود گوادر شہر اوراسکے نواحی علاقوں میں سینکڑوں کی تعداد میں پانچ سے سولہ سال تک کے بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ اِس کے علاوہ اِسوقت گوادر شہر میں کوئی بھی یونیورسٹی ، گرلز کالج اور مُستند فنی ادارہ نہیں جو مقامی طلباء اور نوجوانوں کو میٹرک اور انٹر کے بعد مُستقبل کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیئے تیار کرسکے۔ حکومت کے مطابق گوادر ڈیپ سی پورٹ پر مزید برتھ بنائے جائینگے اِسی طرح پورٹ اور اکنامک فری زون میں کام کے لیئے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں ہنر مند افراد کی ضرورت ہوگی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شہر کی موجودہ تعلیمی اداروں اوراعدادوشمار کو مَدّنظر رکھتے ہوئے کیا مقامی آبادی پورٹ اور فری اکنامک زون کے انسانی وسائل کی ضروریات کو پوری کرسکے گی؟ اِس کا جواب ہر ذی شعور شخص نفی میں ہی دیگا تو پھر اِس مسلۂ کا حل کیا ہے کہ سی پیک CPEC کے پروجیکٹس بھی پایہ تکمیل کو پہنچیں اور مقامی آبادی کا روزگا ر بھی متاثر نہ ہو اور سی پیک کے چیلنجز کو امکانات میں بدل کر ، ڈیموگرافک تبدیلی آئے بغیر اِن میگا پروجیکٹس کی ترقی کے ثمرات سے مقامی آبادی بھی مُستفید ہو؟ میرا خیال ہے کہ اِس سوال کے دو پہلو ہیں ایک سیاسی دوسرا سماجی۔ مقامی آبادی کے خدشات کے ازالے کے لیئے ضروری ہے کہ ملک کے قانون ساز ادارے گوادر شہر کی پسماندگی ، قلیل آبادی اور کم شرحِ خواندگی کو مدنظر رکھ کرقانون سازی کے ذریعے مقامی آبادی کے سیاسی و سماجی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائیں جس میں نئے آنے والوں کو ووٹ کا حق نہ دینے، لوکل اور شناختی کارڈ جاری نہ کرنے اور کاروبار میں مقامی آبادی کی شراکت داری کو لازمی قراردیا جائے۔ اِس کے علاوہ حکومت کو چایئے کہ گوادر شہر میں ہنگامی بنیادوں پر ایک ” جامع تعلیمی پیکج” کا اعلان کرے۔ اَسکے لیے ضروری ہے کہ نہ صرف نئے اسکولوں کا قیام اور اساتذہ کی بھرتی ہو بلکہ موجودہ سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کی کمی دورر کرنے اور خستہ حال عمارات کی مُرمت اورر مزید کمرہِ جماعت، سائنس لیب ، کمپیوٹر لیب، امتحانی ہال وغیرہ کے لیئے بھی اقدامات کرنے ہُونگے اِس کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی اِن سروس ٹریننگ ، ریفریشر کورسز کا انعقاد اور اسکولوں کی مانیٹرنگ کا ایک مربوط میکینزم بھی بنانا ہُوگا جِس سے اساتذہ کی حاضری اور کوالٹی ایجوکیشن کو یقینی بنایا جا سکے۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ ہمیں اپنی پرائمری اور سیکنڈری ایجوکیشن کی بہتری کے لیئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے ہُونگے مگر میرے نزدیک گوادر شہر کا سب سے بڑا مسئلہ اعلیٰ تعلیم ہے۔ اعلیٰ تعلیمافتہ اور پروفیشنل افرادی قوت کی کمی گوادر شہر کا شروع سے ہی مسئلہ رہا ہے۔ شہر میں اعلیٰ تعلیمی ادارے اور طالبعلموں کی رہنمائی نہ ہونے کی وجہ سے اکثر طلباء و طالبات میٹرک اور انٹر کے بعد اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر چھوٹی موٹی سرکاری ملازمت ، دکانداری اور ماہی گیری پر اکتفا کرتے آرہے ہیں یہی وجہ ہے کہ شہرمیں اِسوقت سرکاری اداروں میں مقامی ڈاکٹرز، انجنیئرز اور سِول سرونٹس کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ لہذا ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ فوری طور پر صوبائی اور وفاقی حکومت گوادر شہر میں میرین اور انجنیئرنگ یونیورسٹی کے قیام کا اعلان کریں، اعلیٰ تعلیم کے یہ ادارے وقت کی اہم ضرورت ہیں اور یہیں سے مقامی گریجویٹ پانچ، دس سال بعد گوادرپورٹ اور اکنامک فری زون کے انسانی وسائل کی ضرویات کو کسی حد تک پوری کر سکیں گے۔ مندرجہ بالا اقدامات کے ساتھ ساتھ یہ بھی اشد ضروری ہے کہ ضلع گوادر کی موجودہ میڈیکل اور انجنیئرنگ کی سیٹوں میں اضافہ کیا جائے کیونکہ تیس سال کے مقابلے میں آج گوادر کی آبادی میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ ضلع بھر کے لیئے محض چار میڈیکل اور چار انجنیئرنگ کی سیٹیں اونٹ کے مُنہ میں زیرے کے مترادف ہیں۔ مقامی طلباء ، سول سوسائٹی اور سیاسی پارٹیوں کا یہ دیرینہ مطالبہ رہا ہے جس پر عملدرآمد کا وقت آپہنچا ہے۔ صوبائی اور وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ چائنا اووّر سیز پورٹ ہولڈنگ کمپنی (COPHC) کی انتظامیہ کو بھی چایئے کہ وہ پورٹ کی توسیع اور آپریشنل اقدامات اور فری اکنامک زون کی تعمیر و ترقی کے ساتھ ساتھ مقامی آبادی کی انسانی وسائل کی ترقی میں بھی اپنا کرردار ادا کرے۔ اورجب انسانی وسائل کی ترقی کی بات ہوتی ہے تو تعلیم ہی سے یہ ممکن ہے۔ COPHC کی انتظامیہ کو چایئے کہ مقامی طلبہ و طالبات اور نوجوانوں کو اسکالر شپ دیکر اعلیٰ تعلیم کے لیئے مُلکی اوربین الاقوامی یونیورسٹیز میں بھیجے تاکہ مقامی آبادی کا اُن پر اعتماد بڑھے۔ مختصر یہ کہ چُونکہ سی پیک کے منصوبوں سے سب سے زیادہ متاثر گوادر کی مقامی آبادی ہوگی لہذا سی پیک اور آنے والے دنوں کے ترقیاتی چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیئے ضروری ہے کہ حکومت اِن چیلنجز کو امکانات میں بدلے۔ چیلنجزکو امکانات میں بدلنے کا بہترین طریقہ یہ ھیکہ حکومت گوادر شہر کے لیئے ایک “جامع تعلیمی پیکج” کا اعلان کرے جس میں نئے اعلیٰ پروفیشنل تعلیمی اداروں کے قیام سے لیکر شہر میں موجودہ اسکولوں کی حالتِ زارکو بہتر بنانے کے اقدامات شامل ہوں۔ انہی اقدامات اور کاوشوں سے ہم کسی حد تک مقامی نوجوانوں کے مستقبل کو محفوظ کر سکتے ہیں وگرنہ اِس بات کو خارج ازامکان قرار نہیں دیا جا سکتا کہ اِس ترقی کے نتیجے میں تین چار دہائیوں کے بعد شہرمیں ہر طرف نُوارد ہی نظر آئینگے اور قدیم مقامی آبادی کی رہن سہن کو جاننے کے لیئے کسی موررخ کی کتاب کا سہارا لینا پڑے۔ آخر میں سینیٹر مشاہد حُسین سیّد کی آراء کو شامل کرنا ضروری سمجھتا ہوں اُنکے بقول ” سب سے پہلے تو گوادر کے عوام کو جو اہم ترین فریق ہیں مختلف ترقیاتی منصوبوں سے فائدہ ہونا چائیے اور اُنکے بنیادی معاشی اورسیاسی حقوق کی پاسداری کی جانی چائیے۔ اِس حوالے سے مقامی افراد کے تحفّظات اور خدشات کا صیحح قانونی طریقے سے تدارک کیا جانا چائیے۔ آبادیات کا مسئلہ جمہوریت پر غالب نہیں آنا چائیے خصوصاً پاک چین اقتصادی راہداری کی سرگرمیوں میں تیزی آنے کے بعد نُواردوں کے مقابلے میں گوادر کے شہریوں کے حقوق پامال نہیں ہونے چائیں”