|

وقتِ اشاعت :   February 8 – 2016

کوئٹہ: ریاست کی بنیادہمیشہ جمہور کی بنیاد پر قائم رہتی ہے‘ ادارے عوامی مفادات کے تحت اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیں‘ پارلیمنٹ سب سے معتبر ہوتا ہے‘یہ ایک الگ المیہ ہے کہ جمہوریت کے نام پر بننے والی حکومتوں کا عرصہ بہت ہی کم رہا ہے‘ مگر اس کا قصوروار کس کو ٹھہرایا جاسکتا ہے،،،،؟ عوام اور اشرافیہ کے درمیان پاکستان میں رشتہ ہمیشہ کمزور ہی رہا ہے‘ جس کی بنیادی وجہ ہی عوامی رائے کو یکسر مسترد کرنا ہے‘ 70 ء کی دہائی میں ہونے والے الیکشن کو آج تک شفاف کہا جاتا ہے‘ کیوں؟ کیا اس کے بعد ہونے والے الیکشن عوامی رائے کے برعکس ہوئے‘ ٹھپہ مافیا کے ذریعے جمہوری حکومتیں قائم ہوئیں،،،،؟تاریخ کو جھٹلایا نہیں جاسکتا اور نہ ہی اسے بدلا جاسکتا ہے،،،،! ذوالفقار علی بھٹو کے نام پر آج بھی سیاست کرنے والے اس بات کو سرخم تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں کہ شیخ مجیب الرحمن 70 ء کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو کے مقابلے میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والے سیاسی شخصیت تھے،،،،،!ہم ادھر تم اُدھر کا نعرہ لگانے والوں نے اس جمہوری عمل کو اسی دن دفن کردیا جب عوامی رائے کے خلاف سقوط ڈھاکہ پیش آیا‘ آج بھی ملک کے بارود خان تجزیہ نگار جو ہر وقت اسکرین میں براجمان بیٹھے نظر آتے ہیں وہ ان حقائق سے چشم پوشی اختیار کرتے ہیں،،،،،! جب کوئی سچ بولنے اور لکھنے کی کوشش کرے تو اسے شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور حالات کے تقاضوں کے برعکس و ریاستی بحران میں مزید بحرانیت کا الزام اُن پر لگایا جاتا ہے،،،،،!70 ء کی دہائی کے الیکشن کے بعدبلوچستان کے دو ایوان بالا کے ممبران بزرگ بلوچ قوم پرست رہنماء نواب خیر بخش مری اور ڈاکٹر عبدالحئی نے 73 ء کے آئین پر دستخط نہیں کیے کیونکہ اس پر ان کے خدشات اور تحفظات تھے مگر آج بھی 73ء کا آئین ہی معتبر ہے کیا اِن عوامی نمائندوں کی اہمیت کچھ نہیں تھی،،،،،؟ ہرآمرآکر سارا تختہ الٹ کر آئین کی دھجیاں بکھیردیتا ہے مگر بلوچستان کے دو ممبران کے تحفظات کو سنی اَن سنی کردیا جاتا ہے ‘ ایک آمر نے آئین کے متعلق جو لفظ ادا کیے وہ تاریخ میں آج بھی موجود ہے،،،،! یہاں ذکر خاص کر صرف بلوچستان کا کرنا ہے جو 67ء سالوں کے دوران بھی سب سے پسماندہ رہا ‘ جس کا ذمہ دار نوابوں اور سرداروں کو ٹھہرایا گیا‘ بلوچستان کے کتنے اضلاع ہیں اور کن کن اضلاع میں سردار موجود ہیں‘ بارودخان جیسے تجزیہ نگار شاید ہی واقفیت رکھتے ہوں،،،،!ہم نے بہت ہی نزدیک سے دیکھا ہے کہ وہ بلوچستان سے لاعلم ہیں،،،،،،! بلوچستان کے حقیقی لیڈر شپ کو ہمیشہ دیوار سے لگانے کی کوشش کی گئی جب بھی انہوں نے بلوچستان کے اہم مسائل کو سامنے لانے کی کوشش کی اور اپنی خود مختاری کی بات کی تو انہیں ’’غدار‘‘ جیسے القابات سے نوازاگیا،،،!آج بھی بلوچستان کی پسماندگی کا ذمہ دار نوابوں اور سرداروں کو ٹھہرایا جاتا ہے،،،،،،! یہاں نواب اکبرخان بگٹی کا ذکرکرنا لازم ہے کیونکہ نواب اکبرخان بگٹی کو ہمیشہ یہ طعنہ دیا گیا کہ انہوں نے 73ء کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ ملکر بلوچستان میں گورنر راج قائم کیا اور خود گورنر بنے،،،،،! مگر 70 ء کی دہائی میں نیشنل عوامی پارٹی کے ساتھ جڑے نواب اکبر خان بگٹی کے کردار کے بارے میں واقفیت رکھنے کے باوجود ناواقف ہونے کا ثبوت دیا جاتا ہے،،،،! 70 ء کے الیکشن میں نیشنل عوامی پارٹی کیلئے مہم چلانے میں اہم کردار نواب اکبرخان بگٹی کا بھی تھامگر کوئی لب کشائی نہیں کرتا‘ نواب اکبرخان بگٹی پر الیکشن کی پابندی ہٹانے کیلئے نیپ میں موجود اُن کے اپنے ساتھی تیار نہیں تھے جو نواب اکبرخان بگٹی اور اُن کے قریبی دوستوں کے ساتھ کشیدگی کا سبب بنا‘ آخر کار نواب اکبرخان بگٹی نے نیپ سے اپنا رشتہ انہی رویوں کے باعث توڑ دیا‘ یہ الگ بحث ہے کہ انہوں نے کیونکر ایسا کیا جو صحیح یا غلط تھا،،،،،!مگر اس بات کو ضرور تسلیم کیا جائے کہ 1959ء میں نواب اکبرخان بگٹی نے ہی گوادر کو بلوچستان میں شامل کرنے کیلئے اپنا بڑا کردار ادا کیا وہ ان دنوں وفاقی وزیر دفاع تھے جو بضد رہے کہ یہ ہمارا حصہ ہے جسے ہر حال میں بلوچستان کا پھر سے حصہ بنائینگے،،،،،! گوادر کو واپس بلوچستان کا حصہ بنانے کیلئے سلطنت مسقط کو 3 کروڑ کے لگ بھگ رقم ادا کی گئی جس کی وجہ سے آج گوادر بلوچستان کا حصہ ہے‘مگر آج بارود خان جیسے افراد یہ طعنہ دے رہے ہیں کہ گوادر کی قیمت وفاق نے ادا کی ہے اس لیے وہ پاکستان کی ملکیت ہے ‘ اگر قیمت کی بات کی جائے تو صرف گیس کی مد میں آج بھی وفاق بلوچستان کا اربوں روپے کا مقروض ہے اگر حساب کتاب کیاجائے تو گوادر کی قیمت ادا کی جاچکی ہے ‘جو تاریخی اور قیمت کے طور پر بلوچستان کے حصہ میں آگیاہے،،،،،!مگر کیا کریں بارود خان جیسے تجزیہ نگاروں کا جو لاعلم ہونے کے ساتھ ساتھ تاریخ سے بھی نابلد ہیں مگر پھر بھی آج یہاں کے رول ماڈل کہلائے جاتے ہیں جو خود بڑا المیہ ہے،،،،،!بہرحال ذکر بلوچستان کا ہورہا تھا گزشتہ کئی دنوں سے بلوچستان میں مذہبی شدت پسندوں کی جانب سے خود کش حملے ، بم دھماکے اور ٹارگٹ کلنگ جیسے واقعات رونما ہورہے ہیں ‘ یہ بات قابل غور ہے کہ یہ عناصر باآسانی بلوچستان میں اپنی کارروائی جاری رکھے ہوئے ہیں‘ اس بات کا بھی تاریخی حوالے سے جائزہ لیاجائے تو اِن ’’مونسٹر‘‘ سماجی جِن کو کل تک مجاہدین کہاجاتا رہا ہے جو آج ایک بہت بڑے دجال کی صورت میں سامنے آرہے ہیں‘ مگر ہمارے یہاں آج بھی اِن سے مذاکرات کے عمل کو ترجیح دی جاتی ہے‘ کیوں؟ جب بلوچ قوم پرستوں سمیت مسلح تنظیموں کے متعلق بات چیت کا عمل ہوتا ہے اُس میں سنجیدگی کہیں بھی دکھائی نہیں دیتی‘ جس کی واضح مثال پاکستان حکومت کی جانب سے دونوں فریقین کی جانب سے تشکیل کردہ جرگہ ہے‘ مگر اس کے کوئی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے‘ ہاں البتہ یہ ضرور ہوا کہ پشاور اسکول واقعے کے بعد انہوں نے بے تحاشاکاررائیوں کیں‘ گزشتہ روز بلوچستان میں خود کش حملے کی ذمہ داری بھی کالعدم تنظیم ’’ٹی ٹی پی خراسانی گروپ‘ ‘ نے قبول کی‘ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بلوچستان کے قوم پرست جلاوطن سمیت مسلح گروپ سے کیونکر سنجیدگی کے ساتھ بات چیت کے عمل کو آگے نہیں بڑھایاجارہا‘ اگر ’’ٹی ٹی پی‘‘ سے مذاکرات کیلئے جرگہ تشکیل دیا جاسکتا ہے تو بلوچ قوم پرستوں کے ساتھ کیونکر اس قدر سنجیدگی کے ساتھ بات چیت نہیں کی جاتی اورانہیں آن بارڈ نہیں لیاجاتا ‘ شاید وفاق کی ترجیحات میں بلوچستان آج بھی اُسی 73ء کی دہائی کی نگاہ پر موجود ہے ‘ اگر ریاست اپنی مضبوطی اور وحدتوں کو ایک ساتھ ملکر چلانا چاہتی ہے تو انہیں اس تفریق کو ختم کرنا ہوگا‘ گزشتہ روز خود کش حملہ صرف ایک الرمنگ ہے جو کسی بھی وقت پھیل سکتی ہے‘ اب تک حکام صرف ’’را‘‘ اور ’’این ڈی ایس‘‘ پر اکتفا کررہی ہے‘ ترکی‘شام‘لیبا‘ عراق سمیت مختلف ممالک میں کالعدم تنظیم ’’داعش‘‘ نے اپنے پنجے گاڑھ لیے ہیں کہیں دیر نہ ہوجائے‘ اس سے قبل صورتحال ہاتھ سے نکل جائے پاکستان کی اشرافیہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ بلوچستان کے حقیقی نمائندوں سے بات چیت کریں‘ وگرنہ اس طرح کے حملے مذہبی شدت پسندوں کی جانب سے مزید تیز ہوتے رہینگے‘ حکمرانوں کی جانب سے یہ بات تو کی جارہی ہے کہ دہشت گردوں کا قلع قمع کیاجائے گا مگر اس حوالے سے ٹھوس اقدامات دکھائی نہیں دے رہے جس کی اشد ضرورت ہے‘ وگر نہ آنے والے وقت کی جو صورتحال حال شام‘عراق‘ لیبیا سمیت مختلف ممالک کو ہے اُس کا سامنا پاکستان کو کرناپڑے گا‘ البتہ لگتا نہیں ہے کہ بلوچستان کے متعلق مائنڈ سیٹ میں تبدیلی آئے گی‘ ڈھائی سالہ قوم پرست حکومت نے صرف بلوچ قوم پرستوں کے ساتھ مذاکرات کے دعوے کیے مگر عملاََ صرف ملاقات کے دوران چائے پارٹی کی گئی ‘ اب یہاں کی سیاسی اشرافیہ کو سوچنا ہوگا کہ بلوچ قوم پرستوں کو بجائے دہشت گرد کہنے کے اُن سے سنجیدگی سے بات چیت کی جائے تاکہ دونوں فریقین اپنے اپنے ایجنڈے پیش کریں تاکہ اُس کے بہترین نتائج نکل سکیں‘ ملک کی اشرافیہ کو بلوچ قوم پرستوں کے متعلق مائنڈ سیٹ چینج کرنے کی ضرورت ہے جس کے آثار فی الوقت دکھائی نہیں دے رہی ہے۔!