پی آئی کے ملازمین نے حکمرانوں سے زیادہ ذمہ داری اور محب الوطنی ہونے کا ثبوت دیا اور بغیر کسی شرط کے ہڑتال ختم کردی اور پنجاب کے وزیراعلیٰ سے مذاکرات بھی کئے۔ جبکہ حکمران ہڑتال توڑنے کی کوشش کرتے رہے۔ جلوس پر لاٹھی چارج، آنسو گیس کے گولے برسائے بلکہ یہاں تک سرکاری اہلکاروں کے ذریعے فائرنگ کراکر دو معصوم انسانوں کی جانیں لے لیں۔ دونوں پی آئی اے کے ملازم تھے اور پرامن احتجاج میں شریک تھے۔ حکمرانوں کا یہ فیصلہ عوام دشمنی اور مسافر دشمنی پر مبنی تھا جس میں حفاظتی اقدامات کو نظر انداز کرتے ہوئے بعض پروازیں چلائیں گئیں اور ہڑتال توڑنے کی کوشش کی گئی اور لوگوں کو یہ گمراہ کن تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ ہڑتال ناکام ہوگئی ہے یا جلد ہی ہڑتال ختم کی جائے گی۔ دوسری جانب حکمرانوں کا یہ عوام دشمنی اور مسافر دشمنی رویہ دیکھ کر ملازمین نے یک طرفہ ہڑتال ختم کرنے کا اعلان کیا تاکہ کوئی ناگہانی حادثہ ہڑتال کے دوران اور حکمرانوں کی کوتاہ بینی کی وجہ سے پیش نہ آئے۔ یہ رویہ ذمہ دار اور محب وطن ملازمین کا تھا ان حکمرانوں کی بہ نسبت جو صرف پی آئی اے کو ہر قیمت پر فروخت کرنے کے درپے ہیں اور اس کے لیے کسی بھی حد کو پھلانگنے کے لئے تیار ہیں۔ پوری قوم، پوری حزب اختلاف اور صد فیصد پی آئی اے کے ملازمین اس کی نجکاری کے خلاف ہیں اور اس کو حقیقی قومی اثاثہ بناناچاہتے ہیں۔ امید ہے کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ سے مذاکرات کے بعد حکومت اپنا ارادہ بدل دے گی اور اس قومی اثاثے کو دوبارہ فروخت کرنے اور نہ ہی نیا ڈرامہ رچانے کی کوشش کرے گی۔ بات باعث تعجب ہے کہ ہڑتالی ملازمین نے وفاقی وزیروں سے مذاکرات کرنے سے انکار کردیا تھا۔ شایدوہ ان کو وزیر سے زیادہ وزیراعظم کے ذاتی نوکر تسلیم کرتے ہیں اور مذاکرات پنجاب کے وزیراعلیٰ سے کئے جو وزیر اعظم کے چھوٹے بھائی ہیں اور ان کا طرز عمل ان وفاقی وزراء سے مختلف ہے۔ اس لئے ان پر اعتماد کیا گیا بلکہ مذاکرات کا ماحول سازگار بنانے کے لیے ہڑتال پہلے ختم کرنے کا اعلان کیا گیا اور تمام پروازیں شیڈول کے مطابق چلائیں گئیں اور بعد میں مذاکرات کئے۔ یہ انتہا ئی درجہ کی ذمہ داری کا ثبوت ہے کہ ہڑتالی ملازمین کو مسافروں کی جانیں حکمرانوں سے زیادہ عزیز ہیں۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اپنا نج کاری کا ارادہ ترک کردے اور پی آئی کو دوبارہ حقیقی اور قومی اثاثہ بنائیں تاکہ یہ پاکستان کے عوام کی خدمت تا قیامت تک کرتی رہے۔ بلکہ حزب اختلاف اور سیاسی رہنماء حکومت پر دباؤ ڈالیں کہ پی آئی اے کے لئے سینکڑوں نئے جہاز خریدیں اور دنیا بھر میں فضائی سروس بحال کریں اور ملک کے لئے اربوں ڈالر کمائیں۔ بلکہ موجودہ تعداد سے دوگنا اور چار گنا ملازمین کو ملازمتیں دیں تاکہ وہ خوشحال ہوں اور ملک و قوم کی زیادہ اچھی خدمت کرسکیں۔ نئے جہاز آہستہ آہستہ خریدے جائیں تاکہ پی آئی اے منافع کمانا شروع کرے اور بعد میں اپنے ہی وسائل سے بہت بڑا فلیٹ تیار کرے جو سینکڑوں جہازوں پر مشتمل ہو۔ ایران جس کی آبادی صرف 8کروڑ ہے اگلے دس سالوں میں 500نئے مسافر جہاز خریدنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ حالیہ دنوں میں ایران نے ائیربس سے 118جہاز خریدنے کا معاہدہ کرلیا۔ ATR سے 40جہاز خریدنے کا معاہدہ کیا تاکہ چھوٹے جہاز دور دراز اور کم آبادی والے علاقوں کے لئے چلائے جائیں۔ پی آئی اے منافع کمائے گا اور قومی اثاثہ ہوگا تب جاکر بلوچستان کے عوام کو ہوائی سفر کی سہولیات مل سکیں گی۔ موجودہ حکومت تو پہلے پی آئی اے پر حملہ آور ہوئی اس کو تباہ کیا اور بعد میں اس کو خریدنے کی کوشش کررہی ہے تاکہ اربوں ڈالر ان کے خاندان کے پاس آئے ملک اور قوم کو نقصان ہو تو ان کی بلا سے۔
پی آئی اے کو حقیقتاً قومی اثاثہ بنائیں
وقتِ اشاعت : February 13 – 2016