اطلاعات ہیں کہ بلوچ ساحل پر ہزاروں کی تعداد میں ٹرالرز اور بڑے بڑے ماہی گیری کے جہاز غیر قانونی طور پر ماہی گیری میں ملوث ہیں اور ان کو سیکورٹی اداروں میں کرپٹ عناصر اور کرپٹ نوکر شاہی کی حمایت حاصل ہے۔ ہر ماہ اربوں روپے کے وسائل لوٹے جارہے ہیں۔ آج تک کوئی ٹرالر غیر قانونی طور پر ماہی گیری کرتے ہوئے پکڑا نہیں گیا اور نہ ہی آج تک کسی ٹرالر کو ضبط کیا گیا اور نہ ان کے مال کو کھلے عام نیلام کیا گیا۔ اس کا صاف مطلب یہ لیا جائے کہ سب اچھا ہے۔ ہر کرپٹ افسر اور عنصر کو ان کا حصہ باقاعدگی سے مل رہا ہے اور کرپٹ حضرات کو کوئی شکایت نہیں۔ ماہی گیر بھاڑ میں جائیں۔ یہ رویہ ناقابل قبول ہے۔ حکومت، خصوصاً وفاقی سیکورٹی اداروں کوسٹ گارڈ اور میرین سیکورٹی ادارے کی ذمہ داری ہے کہ بلوچ ساحل کے وسائل کا تحفظ کریں کیونکہ اسی کی ان کو تنخواہ ملتی ہے۔ ان کا کام ملک کے سمندری حدود کی نہ صرف دشمن کے خلاف حفاظت کرنا بلکہ چوروں، ڈاکوؤں اور لٹیروں کے خلاف بھی بلوچ ساحل کو محفوظ بنانا ہے۔ یہ ان کی قومی ذمہ داری ہے۔ اسی کے لیے یہ ادارے قائم کیے گئے ہیں اور اس میں ہزاروں افراد کو روزگار فراہم کیا گیا ہے کہ وہ چور، ڈاکو، لٹیروں کے خلاف کارروائی کریں اور عوام الناس کو تنگ نہ کریں اور کسی نہ کسی بہانے پریشان نہ کریں۔ لیکن آج کل کے حالات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ غیر قانونی ٹرالنگ اور ماہی گیری عروج پر ہے کرپٹ عناصر کو ہر مقام پر اس کا بڑا حصہ مل رہا ہے اس لئے ان کو اجازت ہے کہ وہ ساحل کو مکمل طور پر لوٹ کر اس کو ایرانی ساحل کی طرح بانجھ بنائیں۔ اس لئے بعض ایرانی ماہی گیر پاکستانی ساحل کا رخ کرتے ہیں یا دور دراز علاقوں میں ماہی گیری کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے کئی ایک ایرانی ماہی گیری کی کشتیوں کو بحری قزاقوں نے یرغمال بنایا ہوا ہے اور وہ تاوان کا مطالبہ کررہے ہیں بلوچستان کی ساحل میں کوئی قزاق موجود نہیں ہے اور نہ ہی ان کی موجودگی کا آج تک احساس ہوا ہے البتہ سندھ اور دنیا بھر سے ہزاروں ٹرالرز اور ماہی گیری کی کشتیاں بحر بلوچ میں ضرور موجود ہیں اور غیر قانونی طور پر ماہی گیری میں مصروف نظر آتی ہیں بلکہ وہ مچھلی کا شکار کرتے کرتے ساحل کے اور شہری آبادی کے قریب آتی ہیں اور ان ذخیروں کو نشانہ بناتی ہیں جو غریب اور مقامی ماہی گیروں کے لیے مخصوص کردی گئی ہیں۔ سردار عطاء اللہ مینگل کی پہلی بلوچستان حکومت نے یہ قانون نافذ کیا تھا کہ تین میل ساحل کے قریب کا علاقہ ان ماہی گیروں کے لیے مختص ہے جو ساحل سمندر کے قریب رہتے ہیں ، بڑی کشتیوں اور بڑے بڑے ٹرالرز ان مخصوص علاقوں میں ماہی گیری نہیں کرسکتے ۔بعد کی آنے والی حکومت نے ایک ماہی گیر وزیر کی سربراہی میں اس علاقے کو توسیع دی اور اس کو 12میل تک پھیلا دیا لیکن حقیقت میں اس پر عملدرآمد نہیں ہورہا ہے اور بڑے بڑے جہاز اور ٹرالرز ان ممنوعہ علاقوں میں ماہی گیری کرتے نظر آتے ہیں وجہ یہ ہے کہ متعلقہ افسران کو کروڑوں کی رشوت مل رہی ہے اور ٹرالرز کے مالکان اربوں کی دولت لوٹ کر لے جارہے ہیں اور بلوچ ساحل کو بانجھ بنار ہے ہیں۔ ہم صوبائی حکومت سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ اس خوفناک صورت حال کا ادراک کرے اور فوری طور پر غیر قانونی ماہی گیری کو ختم کرنے کے لیے کارروائی کرے۔ ان میں باہر سے آنے والے ماہی گیروں کی گرفتاری، ٹرالرز کی ضبطی اور جہاز یا کشی پر موجود مال کا کھلے عام نیلام شامل ہو۔ اس میں کسی سے بھی رعایت نہیں برتی جائے بلکہ ان قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کی جائے تاکہ سندھ اور دوسرے خطوں اور ملکوں سے ٹرالرز لاوارث ساحل پر نہ آئیں اور چند روپے رشوت دے کر بلوچستان کے وسائل کو نہ لوٹیں۔ حکومت کو چاہئے اس حوالے سے فوری طور پر کارروائی کرے اور بلوچ ساحل کو بانجھ ہونے سے بچائے۔
غیر قانونی ٹرالنگ اور ماہی گیری
وقتِ اشاعت : February 14 – 2016