|

وقتِ اشاعت :   February 17 – 2016

چینی ترکستان سے مال بردار ٹرین 14دن کی مسافت طے کرکے تہران پہنچ گئی۔ تہران میں ایران ریلوے کے صدر اور نائب وزیر برائے شاہراہیں اور شہری ترقی نے اس کا استقبال کیا۔ یہ ٹرین 34بوگیوں یا 40مربع میٹر کے کنٹینرز پر مشتمل تھی۔ اس میں ان تمام مقامی تاجروں کا سامان تھا جو چھوٹے پیمانے پر کاروبار کرتے ہیں اور خطے کی منڈی میں ان کا ایک بڑا حصہ ہے۔ یہ ٹرین سنکیانگ سے براستہ قازقستان اور ترکمانستان ہوتی ہوئی ایران پہنچی ہے۔ اس طرح سے اس ٹرین نے 10ہزار کلومیٹر کا فاصلہ 14دنوں میں طے کیا ہے۔ اگر سمندری راستہ اختیار کیا جاتا تو اس کو 10ہزار کلومیٹر طے کرنے میں 30دن لگ جاتے۔ خطے اور بین الاقوامی تجارت کے فروغ میں سلک روٹ پر ٹرین کا استعمال اور اس کو دوبارہ قابل استعمال بنانا بڑی کامیابی ہے۔ اس سے چین اور ایران کے عزم کی پختگی کا اشارہ ملتا ہے کہ دونوں ملکوں نے مشترکہ کوششوں کے بعد سلک روٹ ٹرین کو دوبارہ چلایا۔ اب اس روٹ سے دنیا کے کئی ممالک تجارت کرسکیں گے۔ خصوصاً وسطی ایشیاء کے ممالک بلکہ ان کا مال آسانی کے ساتھ مغربی ایشیاء اور یورپ کی منڈیوں میں پہنچ جائے گا۔ چین نے بنیادی ڈھانچہ کی تعمیر کے لیے 100ارب ڈالر پر مبنی ایک خصوصی بینک بنایا ہے جو شاہراہوں کی تعمیر اور ترقی کا کام کرے گا۔ ان میں 40ارب ڈالر صرف خطے کے اندر شاہراہوں اور ریلوے کی تعمیر اور توسیع یا مرمت پر خرچ ہوں گے باقی 60ارب ڈالر دنیا بھر میں شاہراہوں کی ترقی اور ملکوں اور خطوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مربوط بنانے میں خرچ ہوں گے۔ چینی صدر نے 2013میں اس اسکیم کا اعلان کیا اور صرف تین سال بعد سلک روٹ ٹرین سروس بحال ہوگئی۔ اس کے علاوہ ایران اور چین نے ایک الگ معاہدہ کیا ہوا ہے جس کے ذریعے چاہ بہار کی ایرانی بندرگاہ کو چینی ترکستان سے بذریعہ سڑک اور ریل ملایا جائے گا۔ اس مشترکہ منصوبے میں ایران بلوچستان اور افغانستان میں ریلوے کی تعمیر کرے گا جبکہ تاجکستان اور چین بقیہ حصے کی تعمیر میں حصہ لیں گے۔ خصوصاً چین سنکیانگ اور تاجکستان کے درمیان ریگستان میں ریلوے کا نظام قائم کر ے گا یہ ریل روڈ کا نظام سلک روٹ ٹرین سروس کے متوازی ہوگا۔ ایران اس منصوبہ پر چھ ارب ڈالر خرچ کرے گا اور افغانستان کے اندر ریلوے کا نظام قائم کرے گا۔ اس ریلوے نظام کے تحت وسط ایشیائی ممالک سمندری تجارت اور راہداری کی سہولیات چاہ بہار سے حاصل کرسکیں گے ایران کا دیرینہ خواب تھا کہ چین کے ساتھ سالانہ تجارت کا حجم 100ارب ڈالر ہونا چاہئے۔ اس ریل سروس کی بحالی کے بعد اب یہ ممکن نظر آرہا ہے۔ بھارت اور چین بڑے پیمانے پر چاہ بہار بندرگاہ کی ترقی کے لیے سرمایہ کاری کررہے ہیں بھارت چاہ بہار اور زاہدان کے درمیان ریلوے کا نظام تعمیر کررہا ہے جس سے چاہ بہار دنیا کے ریلوے نظام سے منسلک ہوجائے گا ایک طرف وسط ایشیائی ممالک اور دوسری طرف مغربی ایشیاء، گلف اور یورپی ممالک جس سے پورے خطے میں ترقی اور خوشحالی کا دور آنے والا ہے۔ اس ٹرین سروس کی بحالی کے بعد گوادر۔کاشغر راہداری کا منصوبہ سست رفتاری کا شکار ہوگا۔ اس پر چین اور دوسرے سرمایہ کاروں کی توجہ کم سے کم ہوگی اس کی بنیادی وجہ پاکستان میں اندرونی حالات اور مختلف گروہوں کے درمیان راہداری کے روٹ پر اختلافات اور سب سے زیادہ وسائل کی کمی سے یہ منصوبہ کم تر اہمیت کا حامل ہوگا۔ یہ حکومت پاکستان پر منحصر ہے کہ وہ گوادر کو کتنی تیزی سے ترقی دیتا ہے اور کتنی جلد گوادر اور اس کے گرد و نواح میں بنیادی ڈھانچے کو ترقی دی جاتی ہے۔ ابھی تک گوادر میں کوئی ملکی یا غیر ملکی سرمایہ کار نہیں آیا ہے۔ نہ ہی چین کے علاوہ کسی نے دلچسپی کا اظہار کیا کہ وہ گوادر میں سرمایہ کاری سے دلچسپی رکھتا ہے۔ البتہ یورپی ممالک کے ایک کنسورشیم نے ضرور جہاز بنانے کی صنعت میں دلچسپی کا اظہار کیا تھا بلکہ باقاعدہ اس کی تجویز دی تھی کہ پاکستان صرف زمین الاٹ کرے کنسورشیم باقی سرمایہ کاری خود کرے گا۔ گزشتہ 10سال سے یہ تجویز وزارت منصوبہ بندی کے سردخانے میں پڑی ہوئی ہے۔ دوسری جانب چاہ بہار میں دنیا بھر کے امیر ترین ممالک 50ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کررہے ہیں۔ ان میں جاپان کی جانب سے 30لاکھ ٹن پیداوار کا سکران اسٹیل ملز شامل ہے۔ بھارت دنیا کا بڑا کھاد کا کارخانہ چاہ بہار میں قائم کررہا ہے۔ اس کے مقابلے میں گوادر میں فی الحال سرمایہ کاری صفر اور نہ ہونے کے برابر ہے۔ حکومت کا کوئی ارادہ نہیں کہ گوادر ائیرپورٹ کی تعمیر کا کام اس سال شروع کیا جائے۔ گوادر ایک بندرگاہ مگر بغیر کسی ائیرپورٹ کے ہوگا۔