|

وقتِ اشاعت :   February 18 – 2016

پہلی بار وزیراعظم پاکستان نے نیب کے خلاف سنگین الزامات لگائے اور کہا کہ وہ افسران کو ہراساں کررہی ہے ان کو ڈرا رہی ہے، ان کی عزت سے کھیل رہی ہے۔ انہوں نے نیب کو وارننگ دی کہ وہ اپنا رویہ ٹھیک کرے ورنہ اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ ہمیں یہ نہیں معلوم کہ وزیراعظم پاکستان نے یہ سب باتیں کیوں کی اور یہ الزامات کیوں لگائے۔ لیکن یہ بات سچ ہے کہ نیب افسروں کی عزت سے کھیل رہی ہے، ان کو ہراساں کررہی ہے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ کم سے کم بلوچستان کی حد تک یہ سچ ہے کہ نیب جب سے قائم ہوا ہے اس وقت سے لے کر آج تک اس کے خلاف الزامات کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ بنیادی الزامات میں سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانا یا خصوصی طور پر بلوچ افسروں کو نشانہ بنانا ایک عام شکایت ہے۔ بعض ناقدین یہ تک کہتے ہیں کہ نیب صرف اور صرف بلوچوں کے خلاف کارروائی کررہی ہے اور باقی زبانیں بولنے والے لوگ انتہائی کم ہیں اور نہ ہونے کے برابر ہیں۔ تفتیش کے دوران بعض افسران بدزبانی کرتے ہوئے بھی پائے گئے اور غیر شائستہ زبان کے استعمال پر احتجاج بھی کیا گیا۔ یہ سب کچھ سرکاری اہلکاروں کے احکامات کے تحت ہوتا رہا ہے۔ اس لئے بلوچستان میں نیب کی ساکھ زیادہ اچھی نہیں ہے۔ مقامی لوگوں کو یہ سب کچھ معلوم ہے کہ کون کرپٹ ہے۔ کون کم کرپٹ ہے اور کون معصوم ہے سب سے زیادہ کرپٹ لوگوں اور وزراء کے خلاف کارروائی نہ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ نیب ایک غیر جانبداد ارہ نہیں ہے اور نہ ہی اس سے لوگوں کو انصاف کی توقع ہے۔ لوگ کرپشن سے بہت زیادہ نفرت کرتے ہیں اور جب کرپٹ افسران اور سابق وزراء پر کارروائی نہیں ہوتی اور لاوارث اور کم تر درجہ کے ملازمین کو نشانہ بنایا جاتا ہے اس پر رائے عامہ کا شدید ردعمل سامنے آتا ہے۔ دلیل یہ دی جاتی ہے نیب کے 90فیصد سے زائد اہلکار دوسرے صوبوں سے لائے گئے ہیں ان کو بلوچستان سے متعلق کچھ نہیں معلوم اور چند ادارے یا اہلکار ان کو معلومات فراہم کرتے ہیں تویہ کارروائی کرتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں نیب کے افسروں نے اخباری چھاپے خانوں پر نامعلوم وجوہات کی بنا ء پر چھاپے مارے اور اپنا مزاق بنایا۔ وہ سابق وزیر جس کے پاس دو وقت کا کھانا مشکل سے ہوتا تھا۔ وزیر بننے کے بعد اب ارب پتی بن گئے ہیں۔ بلوچستان میں کرپشن اتنے وسیع پیمانے پر ہوئی ہے جس کا دوسرے صوبوں میں تصور نہیں کیاسکتا۔ مگر ان بڑے بڑے مگرمچھوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہورہی ہے۔ حکومت کے پاس تمام ریکارڈ موجود ہے کہ کس اسکیم کے لیے کتنی رقم مختص کی گئی اور وہ رقم کہاں گئی، اس اسکیم کا کیا بنا؟ اس لئے بلوچستان میں عوامی رائے عامہ اس بات کے حق میں ہے کہ احتساب کا عمل مقامی ادارے اور مقامی لوگ کریں۔ یہ صوبائی معاملہ ہے صوبوں کو زیادہ مضبوط بنائیں تاکہ وہ اپنے معاملات کو خود ٹھیک کریں باہر سے آنے والا شخص تین سالوں میں بلوچستان اور اس کے عوام کے مزاج کو سمجھ نہیں سکتا۔ مگر حکومت اور سرکاری ادارے اس مختصر مدت میں خدمت انجام دینے والوں کو بلوچستان کے معاملات میں ماہرین تصور کرتے ہیں اور اس مناسبت سے ان کی تعیناتی کی جاتی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ احتساب کا عمل مقامی ہو اور غیر مقامی افسران اس کو مزید دولت سمیٹنے کا ذریعہ نہ بنائیں جب وہ بلوچستان سے جائیں تو وہ ارب پتی نہ ہوں۔