|

وقتِ اشاعت :   February 19 – 2016

کوئٹہ: مسلم باغ میں پرنسپل کے رویے کیخلاف طالبہ کی خودکشی کے معاملے کی گونج بلوچستان اسمبلی میں بھی سنی گئی۔بلوچستان اسمبلی میں حکومتی بنچوں کے ارکان نے گرلز کالج مسلم باغ کی انتظامیہ کے غلط رویے کے باعث خودکشی کرنے والی طالبہ کے حوالے سے تحر یک التواء مستر د کر دیا ۔ صوبائی عبدالرحیم زیارتوال نے تحر یک کی محالفت کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت کی جانب سے تشکیل کردہ کمیٹی واقعہ کی تحقیقات کر رہی ہے ، تحر یک کا کوئی جواز نہیں بنتا ۔اسمبلی کا اجلاس اسپیکر راحیلہ دُرانی کی صدارت میں ڈیڑھ گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوا اجلاس میں تحر یک پیش کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام کے رکن سردار عبدالر حمان کیتھران نے کہا کہ گر لزکالج کی طالبہ ثاقبہ حکیم نے کالج پرنسپل اورعملے کے نامناسب رویے کی وجہ سے خودکشی کی۔صوبے میں تعلیم کا محکمہ پہلے ہی تباہ تھا اب بے جا مداخلت اور اقرباء پروری سے رہی سہی کسر پوری کی جارہی ہے۔ کی خودکشی کی تحقیقات کرنے کے لئے حکومت نے جو کمیٹی بنائی ہے اُس پر طالبہ کے والدین اور بھائیوں نے عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے اور حکومت سے عدالتی کمیٹی کا مطالبہ کیا ہے ، پشتونخو امیپ کے رہنما اور صوبائی زیر تعلیم رحیم زیارتوال نے تحر یک کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعہ کی تحقیقات کیلئے وزیر اعلیٰ نے ایک کمیٹی تشکیل دے دی ہے جو جلد ہی رپورٹ مر تب کرکے حکومت کو پیش کر یگی ، اس لئے اس تحر یک کا کو ئی جواز نہیں ہے ۔اسپیکر نے رولنگ میں کہا کہ واقعہ بارہ فروری کو پیش آیا تھا جبکہ اسمبلی کا اجلاس پندرہ فروری کو بھی تھا۔ تحریک التواء تاخیرسے پیش کی گئی ، اسمبلی قواعد کے مطابق زائد المعیاد ہونے کی وجہ سے تحریک التواء کا جوازنہیں بنتا۔ واقعہ کی تحقیقات جاری ہیں اس لئے اس پربحث بھی مناسب نہیں۔ صوبائی وزیرداخلہ سرفرازبگٹی کا کہنا تھا کہ خودکشی خود ایک جرم ہے لیکن اس واقعہ کوتعلیم اورحکومتی ادارے سے جوڑا جارہا ہے اس لئے حکومت اس کی تحقیقات کرارہی ہیں۔ورثاء کے مطالبے پر اب جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جارہا ہے۔ تحقیقات مکمل ہونے تک کسی کو مجر م قرار نہیں دیا جاسکتا ۔عبدالرحمان کھیتران نے مسلم باغ انٹرگرلز کالج کا نام ثاقبہ حکیم کے نام سے منسوب کرنے کا مطالبہ بھی کیا جس پرصوبائی وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ تحقیقات میں طالبہ کا مؤقف درست ثابت ہوا تو کالج کے نام تبدیل کردیا جائیگا۔ حکومتی جماعت پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے اپنی جماعت کا مؤقف پیش کرنے کی اجازت نہ ملنے اور اس معاملے پر اپنی ایک الگ تحریک التواء کو ایجنڈا کا حصہ نہ بنانے پر علامتی واک آؤٹ کیا۔