|

وقتِ اشاعت :   February 22 – 2016

کراچی: پاکستان پیپلز پارٹی سندھ کے تحت اتوارکو وزیراعلیٰ ہاؤس میں منعقدہ کل جماعتی کانفرنس میں شامل سیاسی، مذہبی، قوم پرست اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے متفقہ طور پر وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ مردم شماری کے عمل کی نگرانی صوبائی حکومتوں کے سپرد کی جائے اور مردم شماری کی ابتداء سے اختتام تک مشترکہ نگرانی کا نظام قائم کرنے کے ساتھ ساتھ قومی شماریاتی ادارے کی گورننگ کونسل میں تمام صسوبوں کو مساوی نمائندگی دی جائے۔ خانہ شماری کی مدت میں کم از کم 10 دن اور مردم شماری کی مدت میں کم از کم 1 ماہ مقرر کی جائے۔ فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مردم شماری میں نگرانی اور سیکورٹی کی نگرانی دی جائے اور وفاقی حکومت غیر ملکی تارکین وطن کو واپس ان کے ممالک میں بھیجنے اور ان کی رجسٹریشن کا مناسب انتظام کرے۔ قومی مردم شماری کی کی صوبائی حکومتوں کی مشاورت سے مربوط پالیسی کا تعین کیا جائے اور حکومت مقامی سطح پر روزگار کے مواقع پیدا کرے تاکہ لوگوں کو گھروں کے قریب روزگار مہیا ہوسکے۔ تمام غیر قانونی طور پر تارکین وطن کو جاری ہونے والے شناختی کارڈ کو منسوخ کیا جائے اور مردم شماری کی نگرانی کے لئے مانیٹرنگ کمیٹیاں قائم کی جائیں۔ یہ قراردادیں متفقہ طور پر تمام جماعتوں نے منظور کیں جس کے بعد وزیراعلیٰ سندھ نے اعلان کیا کہ ان قراردادوں کی روشنی میں صوبائی حکومت مشترکہ مفادات کی کونسل کے آئندہ ہونے والے اجلاس میں مردم شماری کے حوالے سے اپنا موقف پیش کرے گی اور مطالبہ کرے گی کہ سندھ کو آبادی کے تناسب سے وسائل فراہم کئے جائیں۔ قراداد میں کہا گیا ہے کہ کل جماعتی کانفرنس کے اجلاس میں صوبہ سندھ کی سیاسی اور مذہبی جماعتیں اس امر پر اپنی سخت تشویش کا اظہار کرتی ہیں کہ یکے بعد دیگرے قومی مردم شماریوں میں مختلف طریقوں سے سندھ کی آبادی اس کی حقیقی آبادی سے کہیں کم دکھائی جاتی رہی ہے ۔ اجلاس سندھ میں دوسرے صوبوں سے مسلسل انتقال آبادی اور غیر ملکی غیر قانونی تارکین وطن کی کی سندھ میں مسلسل آمد پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کرتا ہے جس سے سندھ کے وسائل اور سہولیات پر دباؤ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے ۔اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ قومی مردم شماری میں دوسرے صوبوں سے انتقال آبادی کرنے والوں اورغیر ملکی غیر قانونی تارکین وطن کا درست شمار کیا جائے اور اس شمار کے مطابق سندھ کو اضافی وسائل مہیا کئے جا ئیں ۔ اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ غیر قانونی تارکین وطن کو ان کے اپنے ملکوں میں واپس بھیجنے کے انتظامات کئے جائیں ۔ ملک کے پسماندہ علاقوں کو ترقی دے کر وہاں مواقع روزگار پیدا کئے جائیں تاکہ معاشی مجبوریوں کے باعث دوسرے علاقوں سے سندھ منتقل ہونے والوں کو اپنے گھر کے قریب روزگار مل سکے ۔ اجلاس یہ بھی سفارش کرتا ہے کہ آئین کے تحت قانون سازی کرکے سندھ کے جائز حقوق کا تحفظ کیا جائے ۔ یہ اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ مشترکہ مفادات کی کونسل وفاق اور صوبوں کی مشاورت سے قومی مردم شماری کا ایک شفاف اور قابل اعتبار طریقہ کاراور پالیسی مرتب کرے اورصوبوں کے اندر قومی مردم شماری کے عمل کی نگرانی صوبائی حکومتوں کے ذریعے کی جائے ۔ یہ اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ مردم شماری کے ابتدا سے اختتام تک ہر مرحلے کی کڑی اور مشترکہ نگرانی کی جائے جس میں جیسے کہ آبادی کے بلاکوں کا تعین ،خانہ شماری ،، صوبائی حکومت کے ذریعے شمار کرنے والوں کا تقرر۔ ، صوبائی حکومت کے ذریعے نگرانی کرنے والوں کا تقرر ۔، مردم شماری کے ریکارڈ کی سٹوریج ، اس ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن اور پرنٹنگ ،ہر صوبے میں اپنی ڈیٹا پراسیسنگ کی سہولیات کا قیام جہاں صوبے کے مردم شماری کے ڈیٹا کی آخری مرحلے تک پراسیسنگ کی جائے شامل ہیں۔ جلاس اس امر کی مذمت کرتا ہے کہ قومی شماریاتی ادارے کی گورننگ کونسل کے ممبران میں ایک کے علاوہ باقی تمام اراکین کا تعلق صرف ایک اکثریتی صوبے سے ہے ۔ یہ تمام افرادریٹائرڈ افراد ہیں جن کو کنٹریکٹ کی بنیاد پر یہ ذمہ داریاں دی گئی ہیں ۔ اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ کونسل میں ہر صوبے کو مساوی نمائندگی دی جائے اور سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق کنٹریکٹ پر بھرتی کئے جانے والے افراد کے بجائے مستقل سرکاری ملا زمین کو یہ ذمہ داریاں دی جائیں جو حکومتوں کو جواب دہ ہوں ۔اسی طرز پر اجلاس یہ مطالبہ بھی کرتا ہے کہ نادرا کے بیس اعلی افسران میں بھی ہر صوبے کی مساوی نمائندگی ہو۔ یہ اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ غیر ملکیوں کے شماریاتی ادارے نارا کو تاکید کی جائے کہ وہ ایسے غیر قانونی تارکین وطن کی جو غیر قانونی طور پرقومی شناختی کارڈ رکھتے ہیں نشاندہی کرے اور ان کے جعلی شناختی کارڈ وں کو منسوخ کیا جائے ۔اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ قانون کے مطابق خانہ شماری اور مردم شماری کی ذمہ داریاں صوبائی حکومتوں کے سویلین ملازمین کے ذریعے پوری کی جائیں ۔ فوج یا دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو صرف نگرانی اور سیکیورٹی فراہم کرنے کی ذمہ داریاں دی جائیں ۔ اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے قومی مردم شماری کے دوران اس بات کو یقینی بنائیں کہ کوئی بھی شخص یا گروہ دھونس ، دھمکی یا طاقت کا استعمال نہ کرسکے ۔ اجلاس سندھ حکومت کو تجویز دیتا ہے کہ سندھ کے ہر ضلع میں قومی مردم شماری کے سلسلے میں شکایاتی مراکز قائم کئے جائیں جہاں کوئی بھی شہری خانہ شماری اور مردم شماری کے سلسلے میں اپنی شکایت زبانی ، تحریری یا ای میل کے ذریعے درج کراسکے ۔ شکایات اور ان کے ازالے کے سلسلے میں کی جانے والی کاروائی کا ریکارڈ آئین کے مطاق ہر شہری کی دسترس میں ہو ۔ نیز یہ کہ خانہ شماری اور مردم شماری کی تفصیلات کو بھی ہر شہری کی دسترس میں رکھا جائے۔ اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ مردم شماری کے انعقاد میں کسی قسم کی مزید تاخیر نہ کی جائے ۔ اجلاس خانہ شماری کے لئے دی جانے والی تین دن کی مدت اور مردم شماری کے لئے دی جانے والی پندرہ دن کی مدت کو انتہائی ناکافی سمجھتا ہے اور مطالبہ کرتا کہ خانہ شماری کے لئے کم از کم دس دن اورمرد م شماری کے لئے کم از کم ایک ماہ کی مدت مقرر کی جائے ۔اجلاس تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں نیز سول سوسائٹی کی دیگر تنظیموں کے باہمی تعاون کو کلیدی حیثیت دیتا ہے اور اس یقین کا اظہار کرتا ہے اس باہمی تعاون کے ذریعے صوبے میں درست اور شفاف مردم شماری ممکن ہوسکے گی۔