پاکستان اور افغانستان کے درمیان آزادانہ آمدورفت جاری ہے۔ روزانہ ہزاروں لوگ آسانی سے ایک دوسریکے ملک آتے جاتے رہتے ہیں۔ یہ آمدورفت بلاروک ٹوک جاری ہے ابھی تک ایسے کوئی اشارے نہیں ملے ہیں کہ اس آزادانہ اور غیر قانونی آمدورفت پر پابندی لگادی جائے گی یا قانون پر سختی سے عملدرآمد ہوگا۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان دو مقامات پر لوگ آتے جاتے رہتے ہیں۔ ایک تو تورخم جو قبائلی علاقے میں واقع ہے دوسرا چمن جو آج کل صوبہ بلوچستان کا انتظامی حصہ ہے۔ دونوں مقامات سے روزانہ لاکھوں نہیں تو ہزاروں لوگ گزرتے ہیں یہ ان لوگوں کی مرضی ہے کہ قانونی راستہ اختیار کریں ، پاسپورٹ اور ویزا سے سرحد پار کریں یا بغیر سفری دستاویزات کے ایک دوسرے ملک میں آئیں اور جائیں۔ اس پر کسی قسم کا روک ٹوک نہیں ہے۔ حال ہی میں کے پی کے میں سیکورٹی اہلکاروں نے ایک بھارتی جاسوس کو گرفتار کرلیا۔ اس نے بھی عام قبائلیوں کی طرح افغانستان کی سرحد تورخم سے پار کرلی اور پاکستان میں داخل ہوگیا۔ آخر کار وہ پکڑا گیا اور اس کو فوجی عدالت نے جیل کی سزا سنادی۔ اس کے علاوہ باچا خان یونیورسٹی پر حملہ کے دو ملزمان نے بھی تورخم سے سرحد عبور کیا، دونوں پاکستانی تھے۔ ان میں سے ایک کا تعلق سوات اور دوسرے کا جنوبی وزیرستان سے تھا۔ دونوں کے پاس پاکستانی شناختی کارڈ موجود تھے اگر سرحد پر سختی ہوتی اور لوگوں کی چیکنگ ہوتی اور ان سے یہ پوچھ لیا جاتا کہ وہ پاکستانی شہری ہیں افغانستان کیا کرنے گئے تھے؟ ایسی صورت میں ان دونوں مجرمان کی گرفتاری ممکن تھی اگر سرحدی قوانین پر سختی سے عملدرآمد کیا جاتا۔ اس طرح سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ سرحد غیر قانونی طور پر عبور کرتے رہتے ہیں۔ اس بات میں دو رائے نہیں ہوسکتے کہ دشمن ممالک کے سیکورٹی ادارے آسانی کے ساتھ اپنے جاسوس اور دہشت گرد بغیر کسی مشکل کے پاکستان میں داخل کراسکتے ہیں اور وہ کہیں بھی کارروائیاں کرسکتے ہیں۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ سرحدی امور پر زیادہ توجہ دی جائے اور صرف قانونی اور سفری دستاویزات رکھنے والے لوگوں کو پاکستان کے اندر داخل ہونے دیا جائے۔ اس معاملے پر ہر طرح کی دھونس اور دھمکی کا مقابلہ کیا جائے مقامی سیاسی رہنماؤں کو یہ بتایا جائے کہ وہ ملک کے مفادات کے خلاف آزادانہ آمدورفت کی حمایت نہ کریں۔ دوسری جانب ایران ہے مجال ہے کہ کوئی آدمی ایرانی سرحد غیر قانونی طور پر پار کرے۔ اگر اس کی نشاندہی ہوگئی تو اس کو فوراً گرفتار کیا جاتا ہے۔ قانونی کارروائی کے بعد اس کو دوبارہ پاکستان ڈی پورٹ کردیا جاتا ہے۔ حالانکہ 900کلومیٹر طویل سرحد کی دونوں جانب بلوچ رہتے ہیں اور دونوں جانب ان کی رشتہ داریاں ہیں وہ پہلے آزادانہ طور پر آتے جاتے رہے ہیں لیکن ایران میں دہشتگردی کے واقعات کے بعد سخت قسم کی سفری پابندیاں عائد کردی گئیں اور اب سرحد بند ہے۔ بعض مقامات پر دیوار تعمیر کردی گئی ہے اور بعض علاقوں میں سیکورٹی بڑھادی گئی ہے۔ اس لئے تمام پنجابی اور افغان غیر قانونی تارکین وطن جو پاکستانی اسمگلروں اور سرکاری اہلکاروں کی وجہ سے ایرانی سرحد عبور کرتے ہیں ان کو فوراً غیر مقامی ہونے کی نشاند پر گرفتار کرلیا جاتا ہے اور ان کو واپس پاکستان میں حکومت کے حوالے کیا جاتا ہے تاکہ حکومت پاکستان شرمندہ ہو ،چونکہ انسانی اسمگلنگ اربوں ڈالر کی تجارت ہے جس میں پاکستان کے طاقتور ترین افراد اور گروہ شامل ہیں اس لئے یہ رکنے کا نام نہیں لیتی۔ گزشتہ ادوار میں ملک کے وزیر داخلہ ہی انسانی اسمگلروں کی سربراہی کرتے رہے اور اربوں ڈالر اس تجارت سے کمائے۔ یہ گروہ اتنا طاقتور ہے کہ اس کا نیٹ ورک وسطی پنجاب خصوصاً گجرات سے شروع ہوتا ہے اور ایران اور ترکی کی سرحد تک پھیلا ہوا ہے۔ راقم جب ایک سرکاری دورے پر جارہا تھا تو ہماری گاڑی کو 11مقامات پر ایف سی اور لیویز کے اہلکاروں نے روکا مجھ سے پوچھ گچھ کی گئی لیکن ٹرکوں اور بسوں میں بھرے ہوئے پنجاب کے لوگ بغیر کسی رکاوٹ کے ایران کی سرحد صرف اہلکاروں کے تعاون سے عبور کرلیتے ہیں۔ لیکن 90فیصد لوگ ایران میں گرفتار ہوتے اور 10فیصد ترکی کی سرحد تک پہنچتے ہیں۔ روزانہ کم سے کم 100کے قریب غیر قانونی تارکین وطن پاکستان واپس روانہ کردیئے جاتے ہیں۔
سرحدی علاقوں میں آزادانہ آمدورفت
وقتِ اشاعت : February 22 – 2016