|

وقتِ اشاعت :   February 22 – 2016

پاکستان میں شاید ہی کوئی باہوش شخص ہوگا جو ملک کی معاشی ترقی کی مخالفت کرے گا۔ معاشی ترقی کا مقصد معاشی خوشحالی ہے جو ہر ایک فرد کا حق ہے حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ افراد اور عوام الناس کی معاشی خوشحالی اور سیکورٹی کو یقینی بنائے۔ چین پاکستان معاشی راہداری اسی منصوبے کا حصہ ہے جس کے ذریعے بڑی تعدادمیں چینی سرمایہ کار پاکستان کے مختلف علاقوں میں سرمایہ کاری کررہے ہیں جو ایک خوش آئند بات ہے۔ اس معاشی راہداری کا محور بھی معاشی خوشحالی ہے۔ جتنی زیادہ سرمایہ کاری ہوگی تجارت کا حجم اسی تناسب سے بڑھ جائے گا اور ملک کے آمدنی کے ذرائع وسیع تر ہوں گے، چین سے تجارت بڑھے گی۔ اسی وجہ سے پاکستان اور چین کے درمیان شاہراہیں تعمیر کی جارہی ہیں اور ملک کے مختلف حصوں کو ایک دوسرے سے ملایا جارہا ہے۔ بعض سیاستدانوں نے اس منصوبے کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی۔ یہ حقیقت ہے کہ پنجاب تیزی سے ترقی کی جاب گامزن ہے اور باقی صوبے بہت پیچھے رہ گئے ہیں لہٰذا سرمایہ کاری وہیں گی جہاں پر بنیادی ڈھانچہ ہوگا۔ چینی اس بات کا انتظار نہیں کریں گے کہ وہ صنعت کاری کا عمل روک دیں اور انتظار کریں کہ حکومت ژوب، خضدار اور مکران میں سڑکیں اور شاہراہیں تعمیر کرے۔ تجارت اور سرمایہ کاری چلتی رہے گی اور موجودہ دستیاب وسائل کو استعمال میں لایا جائے گا اور ساتھ ساتھ دور دراز علاقوں میں بنیادی ڈھانچہ تعمیر ہوتا جائے گا۔ مثلاً مکران میں ساحلی شاہراہ موجود ہے جو مشرقی روٹ یعنی لاہور اور پنڈی سے منسلک ہے۔ یہ لازمی امر ہے کہ اس کو استعمال میں لایا جائے گا۔ ساحلی شاہراہ کو کراچی کے بجائے سپر ہائی وے سے آسانی سے منسلک کیا جاسکتا ہے اور گوادر پورٹ کا استعمال فوری طور پر ممکن ہے۔ متعصب سیاستدان بضد ہیں کہ موجودہ وسائل اور بنیادی ڈھانچہ کو استعمال میں نہ لایا جائے، اس کے استعمال کو تعصبانہ سمجھتے ہیں، اس پر احتجاج کرتے ہیں جو نامناسب بات ہے۔ اصل شکایت تو بلوچستان کو ہونی چاہئے کیونکہ گوادر۔کاشغر راہداری منصوبے کا اصل منبع گوادر ہے جو آج تک نظر انداز ہے۔ گوادر کے نام پر پورے پاکستان کو ترقی دینے کی کوشش ہورہی ہے مگر گوادر میں لوگوں کو آج تک پینے کا پانی نہیں مل رہا ہے بلکہ پینے کا پانی کراچی اور بجلی ایران سے آرہا ہے، یہ ہے ہمارے ملک میں ترقی کاا صل منبع جس کو گوادر کے نام سے پکارا جاتا ہے ۔دراصل اس سارے کھیل کو پنجاب کی سیاسی قیادت کی کامیابی یا کامیاب حکمت عملی کا نام دینا چاہئے جنہوں نے 40ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا انتظام اپنی محنت سے کیا، ان کی محنت کی تعریف ہونی چاہئے دوسرے صوبوں کے رہنماء بھی ایسا ہی وژن بنائیں اور دوست ممالک کو راضی کریں کہ وہ ان کے صوبوں میں بھی سرمایہ کاری کریں۔ پس گوادر۔کاشغر شاہراہ کم اور پنجاب میں چین کی براہ راست سرمایہ کاری زیادہ ہے۔ بلوچستان کے عوام اس سے خوش ہیں ناراض نہیں کیونکہ پنجاب کی بڑھتی ہوئی آبادی کو اپنے ہی گھر میں روزگار ملے گا۔ وہ یورپ کراچی یا بلوچستان کا رخ نہیں کریں گے۔ ریاست اور حکومت کے لئے زیادہ مسائل اکھٹے نہیں کریں گے۔ ہم یہ توقع کرتے ہیں کہ بلوچستان کے وزیراعلیٰ ایران اور عرب ممالک کا رخ کریں گے اور وہاں سے 100ارب ڈالر کی سرمایہ کاری بلوچستان میں لے کر آئیں گے تاکہ بلوچستان بھی ترقی یافتہ خطوں میں شامل ہو سکے۔