پاکستان کے دو کمزور ترین صوبے ہیں ایک سندھ دوسرا بلوچستان۔ طاغوتی طاقتیں ان دونوں کمزور ترین صوبوں پر حملہ آور ہیں اور اس کوشش میں ہیں کہ ان دونوں صوبوں میں آبادی کے موجودہ تناسب کو تبدیل کردیں جن کو وہ بلوچ اور سندھ کارڈ کے نام سے پکارتے ہیں۔ لاکھوں افغانوں کا یلغار بلوچستان میں ہے۔ ان غیر قانونی تارکین وطن کے پاس پاکستان کے تمام دستاویزات موجود ہیں بلکہ ان کو آسانی کے ساتھ اور کوڑیوں کے دام فروخت کردیئے گئے ہیں۔ قلعہ عبداللہ کی تحصیل دفتر میں 90فیصد افغانوں نے لوکل سرٹیفکیٹ اور دوسری دستاویزات حاصل کرلئے اور مقامی آبادی جو سو فیصد پشتونوں پر مشتمل ہے صرف 10فیصد نے یہ قانونی دستاویزات حاصل کیں۔ جب معاملااخبارات میں آیا تو تمام ریکارڈ جلادیا گیا۔ 90فیصد افغانی راتوں رات پاکستانی ہوگئے۔ یہی معاملہ سندھ کے ساتھ ہے۔ کراچی کی آبادی قیام پاکستان کے وقت ڈھائی لاکھ تھی اس میں سندھ کے صرف مقامی لوگ تھے۔ آج اس شہر کی آبادی دو کروڑ ہے۔ اتنے لوگ کہاں سے آئے۔ کون ان کو لایا۔ کس نے ان کی ہمت افزائی کی۔ کس نے ان کو قانونی دستاویزات فراہم کیں۔ کراچی میں دنیا بھر کے معاشی مہاجر موجود ہیں۔ سانحہ ڈھاکہ کے دوران ایک بھی بنگالی کراچی میں موجود نہیں تھا۔ سب کے سب جان جانے کی خوف سے کراچی چھوڑگئے تھے۔ لیکن ان کی دوبارہ آمد اور آبادکاری کیسے ہوگئی، حکومت نے ان کو سرحد پر کیوں نہیں روکا۔ ان کو واہگہ سرحد سے کراچی کس نے پہنچایا۔ اسی طرح افغان معاشی مہاجر بھی لاکھوں میں ہیں۔ آج کل برما کے مسلمان بھی موجود ہیں پاکستان شاید دنیا کا واحد اسلامی ملک ہے جس پر دنیا کے تمام مسلمانوں کی نگاہیں ہیں اور وہ سب کے سب پاکستان آنا چاہتے ہیں ان کے اپنے ملک میں ان کا مستقبل تاریک ہے۔ اس لئے ایک مسلمان ملک پاکستان موجود ہے جہاں پر وہ آسانی کے ساتھ سندھ اور بلوچستان میں سرکاری حمایت اور سرپرستی کے ساتھ آباد ہوسکتے ہیں۔ سندھ کے تمام سیاسی پارٹیوں نے یکساں موقف اپنایا ہے اور موجودہ حالات میں مردم شماری کی شدید مخالفت کی ہے جس کا مقصد سندھیوں کو اپنے وطن میں اقلیت ظاہر کرنا اور ان کو اپنے وطن سے محروم کرنا ہے۔ یہی حال بلوچستان کا ہے جہاں پر افغانوں کی مسلسل یلغار اس دن سے جاری ہے جب سے وہاں بادشاہت کا خاتمہ ہوا ہے۔ اس میں حکومت پاکستان کے کارندوں کا زیادہ ہاتھ ہے جنہوں نے افغانوں کی پاکستان آمد کو خوش آمدید کہا بلکہ ان کو سیاسی اثاثہ ظاہر کیا تاکہ ان کو اپنے مفادات کی خاطر مناسب موقع پر استعمال میں لائیں۔ افغان خانہ جنگی کے دوران لاکھوں افغان بلوچستان آئے اور حکومت نے ان کو شہری آبادی میں گھل مل کر رہنے کی اجازت دے دی تاکہ مخالفین ان کی شناخت نہ کرسکیں۔ آج تک وہ شہری آبادی میں رہ رہے ہیں۔ اب یہ سب سیاسی مہاجر معاشی مہاجر بن گئے ہیں اور بلوچستان کی معیشت پر نہ صرف بوجھ ہیں بلکہ بلوچ قوم کی شناخت کے لئے شدید خطرہ بن گئے ہیں۔ ایک طرف ریاستی حملے جاری ہیں اور دوسری طرف افغان آبادی کو بڑھایا جارہا ہے تاکہ بلوچ اپنے ہی وطن میں اقلیت بن جائیں یا دوسرے الفاظ میں بلوچ اپنے وطن سے محروم ہوجائیں اور اس پر دوسروں کا قبضہ ہو۔ اس وجہ سے بلوچ پارٹیوں کا یہ مشترکہ موقف ہے کہ افغانوں خصوصاً غیر قانونی تارکین وطن کی موجودگی میں مردم شماری نہیں ہونی چاہئے۔ اب سندھ اور بلوچستان، دو پاکستان کے محروم ترین صوبوں کا یہ مشترکہ مطالبہ ہے کہ مردم شماری اس وقت تک نہ کرائی جائے جب تک پورے پاکستان سے افغانوں اور دوسرے غیر ملکی تارکین وطن کو نکالا نہیں جاتا۔ امید ہے کہ پاکستان مسلم لیگ اور اس کی مرکز اور صوبوں میں حکومتیں اس رائے کا احترام کرینگی اور پاکستان کو ایک بڑے خانہ جنگی سے محفوظ رکھیں گی اورموجودہ نازک صورت حال میں ملک کے لیے مزید مشکلات پیدا نہیں کی جائیں گی۔
بلوچستان اور سندھ۔۔۔مردم شماری
وقتِ اشاعت : February 23 – 2016