|

وقتِ اشاعت :   February 25 – 2016

بلوچوں کو عام طور پر یہ جائز شکایت رہی ہے کہ ان کے جائز مفادات کا وفاق پاکستان میں خاص خیال نہیں رکھا جارہا ہے یا دوسرے الفاظ میں ایک وفاقی اکائی ہونے کے باوجود ان کے مفادات کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔ وجہ تو وفاقی یا مرکزی حکومت کے نمائندے ہی بتائیں گے کیونکہ زیادتیاں انہوں نے کیں ہیں اور عوام الناس نے ان کو برداشت کیا ہے۔ لہٰذا وضاحت مرکزی حکمران دیں یاوہ جو ہمیشہ سے اقتدار میں رہے ہیں۔ پاکستان بھر میں سو کے لگ بھگ وفاقی ادارے ہیں جو وفاقی حکومت کے کنٹرول میں ہیں یا ماتحت ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کا آج تک کوئی سربراہ بلوچ نہیں بنایا گیا۔ بلوچستان کے نام پر ہمیشہ غیر بلوچ کو ضرور لیا گیا لیکن اس کا مقصد بلوچوں کے ساتھ انصاف کرنا نہیں تھا بلکہ جان بوجھ کر زیادتی کرنی تھی۔ جب سے پاکستان بنا ہے، اسٹیٹ بینک کا ڈائریکٹر کبھی بلوچ تعینات نہیں ہوا۔ بلوچستان کے نام پر غیر بلوچ ضرور تعینات ہوا ہے لیکن اس نے صرف اور صرف اقلیت کی نمائندگی کی ہے اور جائز بلوچ مفادات کا کبھی تحفظ نہیں کیا۔ یہی حال ملک کے اندر بیشتر حکومتی کنٹرول میں اداروں کا ہے جہاں پر بلوچ اہلکار نہیں پائے جاتے۔ جہاں تک بلوچ کوٹے کا تعلق ہے حکومت کی یہ جانبدارانہ پالیسی ہے کہ بلوچ کو کسی بھی طرح سے کوئی مراعات نہ ملیں۔ حالیہ دنوں میں پاور ڈسٹری بیوشن کمپنی کا اشتہار تھا جس میں گریڈ 17کے تمام افسران اور انجینئروں کے پوسٹوں کوپنجاب اور دوسرے صوبوں کے لئے مختص کیا گیا تھا اور یہ پوسٹیں بلوچستان والوں کے لئے نہیں تھیں۔ اس پر قیامت برپا ہوگیا اور صوبائی حکومت کی شدید احتجاج کے بعد وہ اشتہار واپس لینا پڑا۔ طریقہ واردات یہ ہے کہ کم گریڈ کے پوسٹ پر بھی پنجاب یا دوسرے علاقے کے لوگوں کو بلوچستان کے کوٹے پر جعلی ڈومیسائل یا جعلی لوکل سرٹیفکیٹ والوں کو بھرتی کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کم ترین تنخواہ پر بلوچ ایک ہزار میل دور ملازمت نہیں کرسکتا۔ اس طرح سے حکومتی اہلکار جعلی ڈومیسائل حاصل کرکے اپنے رشتہ دار بلوچستان کے نام پر بھرتی کرتے ہیں اور دھوکے سے بلوچستان کی نمائندگی حاصل کرتے ہیں۔ ہم نے انہی کالموں میں بارہا یہ مطالبہ کیا تھا کہ بلوچستان کے اندر تمام وفاقی اداروں میں صرف اور صرف بلوچوں کو بھرتی کیا جائے تاکہ ان کا وفاق میں کوٹہ برابر ہو۔ آج کل بلوچستان کا کوٹہ 9فیصد ہے۔ لہٰذا بلوچستان کے نام پر جعلی بھرتی شدہ تمام وفاقی اداروں میں ملازموں کو تبدیل کیا جائے ،دوسرے صوبے کے ملازمین واپس بھیجے جائیں اور صرف بلوچوں کو ہی ادنیٰ سے اعلیٰ ترین عہدوں پر تعینات کیا جائے، یہ ڈرامہ رچانا بند کردیں کہ بلوچستان کے نام پر غیر بلوچوں کو اولیت دی جائے۔ اس طرح سے یہ تاثر ختم ہوجائے گا کہ بلوچستان اور اس کے اکثریتی آبادی بلوچوں کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے۔ وفاق کے مفاد میں ہے کہ اس قسم کے تاثر زائل ہوں اور پاکستان میں رہنے والے تمام قوموں کو یہ یقین آجائے کہ وہ اس ملک کے برابر کے شہری ہیں۔ دوسرے درجے کے شہری نہیں ہیں اور ان کے حقوق برابر ہیں اس لئے بلوچستان کی اکثریتی آبادی کے مفادات کا مکمل تحفظ ہی بلوچستان کے حقوق کا تحفظ ہے۔ بلوچستان کے نام پر غیر بلوچوں کی سرپرستی بند کی جائے اور لوگوں کو یہ تاثر نہ دیا جائے کہ ان کے ساتھ امتیازی سلوک ہورہا ہے۔