کوئٹہ: خشک سالی اور بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے قحط نے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں پنجہ گاڑنا شروع کر دیا ،خضدار ،نوشکی ،چاغی ،ڈالبندین،خاران،آواران ،قلات ،سوراب ،مستونگ ،ڈھاڈر سمیت بلوچستان کے پیشتر اضلاع خشک سالی کی لپیٹ میں آ گئے ،بیتے چشمے خشک ہونے لگے ،خشک سالی کی وجہ سے انسان و جانور مختلف بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں اندرون بلوچستان سے جانوروں کی ہلاکتوں کی خبر یں بھی آ رہی ہیں ، واٹر لیول خطرناک حد تک گر چکی ہے ،باغات خشک ہو گئے ہیں ،کاشتکاروں کو بھی شدید مشکلات کا سامنا ہیں ،قحط سالی کی وجہ سے مالدار اپنی جانوروں کو کم قیمت پر فروخت کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں قحط سالی کی اطلاعات کے با وجود حکومتی سطح پر اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے کوئی اقدام نظر نہیں آتا
ماضی میں بھی قحط سالی کی تدارک کے لئے حکمت عملی نہیں اپنائی گئی جس کی وجہ سے سینکڑوں کی تعداد میں انسان اور جانور موت کی آغوش میں چلے گئے تھے تفصیلات کے مطابق طویل خشک سالی نے بلوچستان کے بیشتر اضلاع کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے خضدار ،نوشکی ،چاغی ،ڈالبندین،خاران،آواران ،قلات ،سوراب ،مستونگ ،ڈھاڈرمیں بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے قحط کی صورتحال پیدا ہو گئی ہے خشک سالی کی وجہ سے ان علاقوں میں واٹر لیول خطرناک حد تک گر چکی ہے بعض علاقوں میں واٹر لیول بارہ سو سے پندرہ سو تک چلی گئی ہے بارشیں نہ ہونے اور پانی کی سطح نیچے چلی جانے کی وجہ سے بلوچستان میں زمینداری و کاشتکاری بری طرح متاثر ہو گئی ہیں جبکہ قحط سے متاثر ہ علاقوں میں لوگ مختلف بیماریوں اور کم خوراکی کا شکار ہو رہے ہیں اگر صورتحال یہی رہی تو جانوروں کے ہلاکتوں کے ساتھ ساتھ انسانوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ بھی شروع ہو جائے گا ،خشک سالی اور چراگاہوں میں سبزہ نہ ہونے کی وجہ سے جانور انتہائی لاغر ہو رہے ہیں اور مالدار اپنی جانوروں کو اونے پوے دام فروخت کر کے لاکھوں روپے کا نقصان اٹھا رہے ہیں جس تیزی سے خشک سالی اور قحط بلوچستان کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہیں اس صورتحال سے نمٹنے کے لیئے اتنی ہی تیزی سے حکمت عملی اپنا کر متاثرہ علاقوں کے لوگوں کی بحالی کی ضرورت ہے مگر اس وقت تک حکومت اندرون بلوچستان شروع ہونے والی قحط کو زیادہ سنجیدہ نہیں لے رہی ہے اس صورتحال کو سنجیدہ نہ لینے کی وجہ سے اس بات کا قومی امکان ہے قحط کی صورتحال خطرناک شکل اختیار کر جائے گی اس حوالے سے بلوچستان کے سیاسی حلقوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے خشک سالی اور قحط نے بلوچستان کے بیشتر علاقوں کو خطرناک حد تک اپنی لپیٹ میں لی چکی ہیں مالداری (لائیو اسٹاک) کاشتکاری اور باغبانی شدید متاثر ہو گئے ہیں چراگائیں خشک ہو گئی ہے جانور مر رہے ہیں خشک سالی کی وجہ سے چشمے خشک ہو نے لگے اور اگر صورتحال یہی رہی تو انسانوں کے مرنے کی اطلاعات بھی ملیں گے
حکومت اور اپوزیشن اس بنیادی مسئلے پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں ماضی قریب میں جب بلوچستان کے مختلف علاقوں میں قحط سالی شروع ہو ئی تھی تب اس وقت کی حکومت نے اس کو سنجیدہ نہیں لیا اور دیکھا دیکھی نوشکی ،کردگاپ،آڑنجی وڈھ اور مختلف علاقوں میں سینکڑوں کی تعداد میں انسان اور ہزاروں کی تعداد میں جانور موت کی وادی میں چکے گئے حکومت انسانوں کی موت کا انتظا ر کرنے کے بجائے ابھی سے اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے اقدامات اٹھائیں دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے بارشیں نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ درختوں کی بیدریخ کھٹائی ہیں اس صورتحال کا مقابلہ جنگی بنیادوں پر شجرکاری مہم کو سال بہ سال تیز کر کے کیا جا سکتا ہے اس وقت بلوچستان میں محکمہ جنگلات کا شجری کاری مہم میں واضح کردار ہے مگر وہ اپنی کردار سے غافل ہیں اخبارات میں بلوچستان بھر میں لاکھوں پودے لگانے کا دعویٰ کیا جاتا ہے مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا حکومت کو چائیے کہ نہ صرف آج کے بلکہ آنے والے نسلوں کی زندگیوں کو محفوظ بنانے کے لئے درخت کی کھٹائی روکنے کے ساتھ ساتھ شجر کاری مہم کو جنگی بنیادوں پر دیکھیں عوام بھی اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرتے ہوئے کم سے کم ہر فرد ایک پودے لگا کر اپنی آنے والی کل کو محفوظ بنائیں ماہرین کا کہنا ہے کہ واٹر لیول کا نیچے گرنے کی بنیادی اسباب میں سے ایک سبب بے دریغ ٹیوب ویل لگانا بھی ہے کاشتکاری کے لئے جہاں ایک ٹیوب ویل کی ضرورت ہے وہی زمیندار درجنوں ٹیوب ویل لگا کر زیادہ سے زیادہ پیداوار کی چکر میں اپنی نسلوں کا پانی بھی ہضم کر گئے ہیں نئی ٹیوب ویلوں پر حکومتی سطح پر پابندی لگانے کی ضرورت ہے ماہرین کا کہنا ہے کہ خشک سالی کے ساتھ ساتھ ہم نے خود بھی اپنی چراگائیں ختم کر دی ہے جن جن علاقوں میں قدرتی چراگائیں ہیں وہاں اگر پانچ لاکھ جانوروں کی گنجائش ہے وہاں ہم نے دس لاکھ جانور پال رکھے ہیں جس کی وجہ سے چراگائیں تباہ ہو تے جا رہے ہیں مالداروں کو چائیے کہ وہ جانوروں کی تعداد بڑھانے کی بجائے بہتر نسلوں کی جانور کم تعداد میں پالیں جس سے ایک جانب چراگائیں محفوظ رہیں گے دوسری جانب مالداروں کو منافع بھی زیادہ حاصل ہو گا ۔دریں اثناء چاغی سے نمائندہ آزادی کے مطابق چیف سیکرٹری بلوچستان سیف اللہ چھٹہ کی خصوصی ہدایت پر (SMBR )قمر مسعود ،کمشنر کوئٹہ ڈویژن قمبر دشتی ،ڈپٹی کمشنر چاغی ،اے سی چاغی عبدالرزاق،اور کمپلینٹ سیل کے دیگر ممبران نے تحصیل چاغی میں قحط سالی سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا لوگوں کے مسائل سنے اس موقع پر قمر مسعود اور کمشنر کوئٹہ ڈویژن قمبر دشتی نے صحافیوں کو بتایا کہ ہم نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور اس حوالے سے تمام محکموں کے آفسران سے خصوصاً زراعت اور لائیو اسٹاک کے زمہ داران سے رپورٹ طلب کی ہیں متعلقہ آفسران پندرہ دن کے اندر رپورٹ مرتب کر کے ارسال کرنے کی پابند ہونگے قبل ازیں کھلی کچہری میں کمشنر کوئٹہ نے مالداروں ،زمینداروں کے مسائل سنے اس موقع پر مالداروں کا کہنا تھا کہ ان کی جانوریں مر رہے ہیں کافی نقصان کا سامنا کر رہے ہیں اس موقع پر انہوں نے اپنی نقصانات کے متعلق تفصیلات سے آگاہ کیا اور درخواستیں بھی ان کے حوالے کر دی اس موقع پر کمشنر کوئٹہ ڈویژن قمبر دشتی نے متاثرین کو یقین دلایا کہ جلد ٹیمیں تشکیل دئیے جائیں گے اور موجودہ صورتحال پر قابو پایا جائے گا۔