|

وقتِ اشاعت :   February 27 – 2016

پہلے تو بلوچستان میں بجلی نہیں ہے اور ہے تو صرف محدود علاقوں تک۔ حکومت نے 67 سال گزرنے کے بعد بھی پورے صوبے میں ٹرانسمیشن لائنیں تعمیر نہیں کیں۔ ابھی بھی مکران، رخشان، وسطی جنوبی اورشمالی بلوچستان کے علاقے بجلی سے محروم ہیں۔ وہاں پر ٹرانسمیشن لائنیں تعمیر نہیں ہیں تو لوگوں کو بجلی کس طرح ملے گی۔ ماہرین نے حکومت کو یہ مشورہ دیا تھا کہ بلوچستان میں موجودہ بجلی کے نظام کے بجائے شمسی توانائی پہ توجہ دی جائے۔ بلوچستان ایک وسیع و عریض خطہ ہے یہاں پر ٹرانسمیشن لائن بچھانے اور بجلی پہنچانے میں بہت زیادہ اخراجات آئیں گی اور تاخیر بھی زیادہ ہوگی لہٰذا ابتدا ء سے بعض علاقوں میں شمسی توانائی کو فروغ دیا جائے جسکو عام طور پر روف ٹاپ سولیوشن ROOF TOP SOLUTION کہاجاتا ہے۔ اس میں لائن لاسز نہ ہونے کے برابر ہوں گے اور اس پر جاری اخراجات اور بعد ازاں اس کی مرمت پر اخراجات بھی کم ہوں گے۔ منگلا، تربیلہ اور گدو کے بجائے مقامی بطور پر چھوٹے چھوٹے پاور ہاؤس بنائے جائیں۔ جبکہ الگ تھلک چھوٹے چھوٹے دیہاتوں کو شمسی توانائی سے بجلی فراہم کی جائے تو بہتر ہے اس سے اخراجات کم ہوں گے اور دور دراز علاقوں کے لوگوں کو فوری طور پر بجلی کی فراہمی ممکن ہوسکے گی۔ موجودہ صورت حال میں پاکستان ایک سنگین معاشی اور مالی بحران سے گزر رہا ہے۔ اس کے پاس وسائل ہی نہیں ہوں گے کہ ان پر عمل درآمد کیا جائے۔ بلوچستان کے بارے میں یہ بات حقیقت ہے کہ یہاں وفاق کا ہر منصوبہ کم سے کم 30 سال میں مکمل ہوتاہے۔ یہاں منصوبوں پر سالوں نہیں دہائیاں لگ جاتی ہیں۔ اس لئے منصوبوں کو جلد سے جلد مکمل کرنے کے لئے حکومت اور ریاستی اداروں پر مستقل دباؤ کا برقرار رکھنا ضروری ہے۔ گوادر بندرگاہ کو تعمیر ہوئے 10 سال کا عرصہ گزر گیا۔ اس کے دوسرے مرحلے پر کام کا ہونا تو چھوڑ دیں، سوچنا تک شروع نہیں ہوا اور دعویٰ ہے کہ گوادر بندرگاہ پاکستان کے ہر فرد کی تقدیر بدل دے گا۔ اس لئے ضروری ہے کہ بلوچستان کے بجلی کے منصوبوں پر عملدرآمد کے لئے کام میں تیزی لائی جائے تاکہ کم سے کم وقت میں صوبے کے تمام افراد کو بجلی فراہم ہوسکے۔ سالوں قبل صوبائی حکومت نے براہ راست ادائیگیاں کیں تھیں تاکہ نوکنڈی اور زاہدان کے درمیان ٹرانسمیشن لائن کی تعمیر ہواور نوکنڈی کو ایران سے بجلی فراہم کی جائے۔ اگر حکومت اس پر زیادہ توجہ دے کہ زاہدان ۔ کوئٹہ پاور ٹرانسمیشن لائن جلد سے جلد تعمیر ہو تاکہ چاغی ضلع میں صنعتی انقلاب آئے۔ سیندک، ریکوڈک اور معدنیات کے بڑے بڑے منصوبوں کو بجلی کے ذریعے جلد سے جلد شروع کیا جائے۔ بلوچستان میں 72 قسم کے معدنیات پائے جاتے ہیں جو زیادہ تر چاغی کے علاقے میں ہیں جہاں پر بڑی بڑی صنعتیں قائم کی جاسکتی ہیں۔ چاغی خصوصاً ہامون ماشکیل میں زیر زمین پانی کے زبردست وسائل موجود ہیں جن کو استعمال میں لاکر چھوٹے چھوٹے اسٹیل ملز اور تانبہ اور سونا حاصل کرنے کی مزید فیکٹریاں لگائی جاسکتی ہیں۔ نوکنڈی خود ماربل یا سنگ مرمر کی صنعت کا سب سے بڑا مرکز بن سکتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ گزشتہ 67 سالوں سے چاغی کو بجلی اور سڑکوں سے محروم رکھا گیا ہے تاکہ اس خطے میں صنعتی انقلاب نہ آئے اور لوگ نان شبینہ کے محتاج رہیں۔ بعض ماہرین معاشیات کا خیال ہے کہ ایران سے بجلی خرید کر چاغی اور خصوصاً نوکنڈی خطے کو ترقی دی جائے جو وسط ایشیائی ممالک شاہراہ پر واقع ہے۔ آئندہ وسط ایشیاء کو جانے والی ریل اور روڈ نوکنڈی سے گزریں گی اور اس خطے کی قسمت بدل جائے گی۔ گوادر سے وسط ایشیائی ممالک یا افغانستان کو راستہ نوکنڈی سے جاتا ہے کوئٹہ یا ژوب سے ہوکر نہیں جاتا۔ تفتان، سیندک ریل ٹریک پہلے ہی بچھائی جاچکی ہے اور اس کے 14 میل کے فاصلے پر افغانستان کی سرحد ہے۔