|

وقتِ اشاعت :   February 27 – 2016

کوئٹہ: بلوچستان حکومت نے عدالت عالیہ کو بتایا ہے کہ ثاقبہ حکیم خودکشی کیس کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن کی منظوری دیدی گئی ہے جبکہ کالج پرنسپل اور کلرک کے خلاف درج ہونے والے مقدمے کی نقل عدالت میں پیش کردی گئی۔ بلوچستان ہائی کورٹ میں قلعہ سیف اللہ کی تحصیل مسلم باغ کی سترہ سالہ طالبہ ثاقبہ حکیم خودکشی کیس کی سماعت ووکیشنل جج جناب جسٹس شکیل بلوچ پر مشتمل سنگل بنچ نے کی۔ ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس (لیگل) نوشید یونس ،سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس قلعہ سیف اللہ عابد علی بلوچ ، اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل عبدالطیف کاکڑ ،ظہور احمد بلوچ ، ثاقبہ حکیم کے بھائی اعزازاللہ اور ان کے حامی بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر عبدالغنی کاکڑ سمیت دیگر حکام عدالت میں پیش ہوئے۔ اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل عبدالطیف کاکڑ نے کالج پرنسپل اور کلرک کے خلاف درج ہونے والے مقدمہ کی کاپی عدالت میں پیش کرتے ہوئے بتایا کہ عدالتی حکم پر مقدمہ درج کرلیا گیا ہے اور اس میں کالج پرنسپل عابدہ غوث اور کلرک محمود احمد کو نامزد کیا گیا ہے۔ عدالتی استفسار پر انہوں نے یہ بھی بتایا کہ چیف سیکریٹری بلوچستان نے وطن واپسی پر واقعہ کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن کی منظوری دے دی ہے اور سمری بلوچستان ہائی کورٹ کے رجسٹرار کو بجھوادی ہے اب بلوچستان ہائی کورٹ کمیشن کی تشکیل سے متعلق مزید کارروائی کرے گی۔ اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت سے استدعا کی کہ کمیشن کی رپورٹ آنے تک ایف آئی آر پر کارروائی روکی جائے۔ سماعت کے دوران بلوچستان ہائی کورٹ کے جسٹس شکیل بلوچ نے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل سے متعلق منگل تک حتمی رپورٹ عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔ سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان عبدالطیف کاکڑ اور ان کے ساتھی ظہور بلوچ نے بتایا کہ ہم نے صوبائی حکومت کی جانب سے یہ مؤقف پیش کیا کہ چونکہ جوڈیشل کمیشن تشکیل کے مرحلے میں ہے اور ایف آئی آر بھی درج کردی گئی ہے۔ ایف آئی آر درج ہونے کے بعد پولیس شواہد اکٹھا کرتی ہے ، عینی شاہدین کے بیانات قلمبند ہوتے ہیں اور جوڈیشل کمیشن کو بھی شواہد، عینی شاہدین کے بیانات اور دیگر ریکارڈ کی ضرورت ہوتی ہے اس طرح اس واقعہ کی دو متوازی تحقیقات چل رہی ہوں گی اس لئے بہتر یہی ہے کہ کمیشن کی رپورٹ آنے کا انتظار کیا جائے جس میں ذمہ داروں کا تعین ہوجائے گا اور پھر اس پر مزید کارروائی ہوسکے گی۔ انہوں نے کہا کہ خودکشی خود پاکستان کے آئین کی دفعہ 325 کے تحت جرم ہے ان چیزوں کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ صوبائی حکومت اس مقدمے کو قانون کے مطابق چلانا چاہتی ہے اسے سیاسی نہیں بنانا چاہیے۔ ثاقبہ حکیم کے بھائی اعزازاللہ نے عدالتی کارروائی پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اعزازاللہ کا کہنا تھا کہ ہم عدالت کی کارروائی سے بہت مطئن ہے۔ عدالتی حکم پر ہی پولیس نے ایف آئی آر درج کی ہے اس میں بھی بس جان چھڑانے کی کوشش ہے اور کمزور دفعات لگائے ہیں لیکن ہمیں عدالت نے یقین دلایا ہے کہ ہمارے ساتھ انصاف کیا جائے گا اور منگل تک جوڈیشل کمیشن بھی بن جائے گا۔ جب کمیشن بنے گا تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔ اگر منگل تک کمیشن نہیں بنا تو پھر ہم احتجاج کریں گے۔ ثاقبہ کے لواحقین کی جانب سے کیس کی پیروی کرنے والے بلوچستان ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عبدالغنی خلجی کا کہنا ہے کہ پولیس کی جانب سے مقدمے میں کمزور دفعات لگائی گئی ہیں۔ دفعہ 322 کی کوئی سزا مقرر نہیں اس میں صرف دیت کی رقم کی ادائیگی ہوتی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ مقدمے میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 316 بھی لگائی جائے جس کے تحت مجرم کی سزا عمر قید ہے۔ کیونکہ ثاقبہ حکیم کو ذہنی کوفت دی گئی جس کی بناء پر اس نے خودکشی کی۔ یہ قتل کے مترادف ہے۔