|

وقتِ اشاعت :   March 1 – 2016

ایران میں پارلیمان کے انتخابات مکمل ہوگئے ,ساتھ ہی کونسل کے انتخابات ہوئے جو آئندہ کارہبر اعلیٰ منتخب کرے گا ۔ایران کے انتخابات کے نتائج حوصلہ افزا ہیں اور رائے عامہ نے صدر روحانی کے فیصلوں کو خوش آئند قرار دیا ہے اور اس بات کا مکمل اشارہ دے دیا ہے کہ ایران اپنی تنہائی ختم کرنا چاہتا ہے اور دنیا سے تعلقات بہتر بنانا چاہتا ہے۔ اب تک ایران کو انقلابی ایران تصورکیا جاتا رہا ہے۔ گزشتہ ادوار میں بھی اصلاح پسند حکومتیں اور صدور صاحبان اس انقلابی پالیسی کو تبدیل نہ کرسکے گو کہ انہوں نے سرتوڑ کوششیں کیں اور ناکام رہے۔ بعض اوقات رہبر اعلیٰ نے مداخلت کرکے ان اصلاح پسند، معقول سیاست دانوں کو راستے سے ہٹایا اور ایران کو دوبارہ راہ انقلاب پر گامزن کردیا۔ اب ایران براہ راست عالمی تنازعات میں کردار ادا کررہا ہے۔ ایران کے مخالفین یہ الزامات لگارہے ہیں کہ ایران اپنا شیعہ انقلاب پڑوسی ممالک میں برآمد کررہا ہے۔ اس کی زندہ مثالیں یمن، لبنان، شام، عراق جہاں پر کھلے عام ایرانی رضا کار جنگ میں حصہ لے رہے ہیں یا اپنے پسند کے گروہوں کی امداد کررہے ہیں۔ اسی خوف کے پیش نظر گلف کے چھوٹے چھوٹے ممالک نے سعودی عرب کی سربراہی میں ایک محاذ بنالیا ہے جو حقیقتاً ایران مخالف محاذ ہے اور اس کا مقصد اپنے مفادات کا تحفظ ہے۔ اس محاذ کو بڑے بڑے مسلم ممالک پاکستان، ترکی، مصر کی بھی حمایت حاصل ہے اس طرح سے یہ ایک فوجی اتحاد بن گیا ہے جس میں 34ممالک شامل ہیں۔ ان ممالک کے افواج آج کل سعودی عرب میں جنگی مشقیں کررہے ہیں۔ ان مشقوں میں فضائیہ بھی حصہ لے رہی ہے۔ درحقیقت یہ ایران مخالف اتحاد ہے جس کا مقصد بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایران کی توسیع پسندی کو روکا جائے اور اس کا مقابلہ کیا جائے۔ دوسری جانب ایران کے عوام کا رویہ حکمرانوں کے لیے یہ جواز پیدا کررہا ہے کہ ایران اپنے معاملات دوسرے ممالک سے ٹھیک کرے تاکہ جنگ کی نوبت نہ آئے اور معاملات خوش اسلوبی سے حل ہوجائیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ایران کے موجودہ حکمرانوں کا رویہ کیا ہوتا ہے۔ کیا وہ اس بات پر تیار ہیں کہ ا صلاح پسند اور اس کے ایرانی رہنما دنیا بھر سے اپنے تعلقات دوبارہ استوار کرلیں جس میں امریکہ بھی شامل ہے۔ کم سے کم ایران کے مسلح افواج کی طرف سے اس قسم کے اشارے نہیں مل رہے ہیں۔ کیا صدر روحانی اتنا طاقتور ہوجائیں گے کہ مسلح افواج اور انقلابی گارڈ رہبر اعظم کے بجائے ان کی پیروی کرے یا ان کی پالیسی پر عمل پیرا ہو۔ یہ بہت مشکل نظر آتا ہے۔ خمینائی نے اس سے قبل اعلان کیا تھا کہ امریکہ اور مغربی ممالک سے صرف اور صرف ایٹمی معاملات میں تعاون ہوگا۔ دوسرے معاملات میں امریکہ ہمیشہ کی طرح شیطان بزرگ ہی رہے گا۔ 76سالہ علی خمینائی اس بات پر کبھی راضی نہیں ہوں گے کہ امریکہ اور مغرب کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کئے جائیں گو کہ ایرانی عوام کی خواہش صاف نظر آتی ہے اور خصوصاً موجودہ انتخابی نتائج کے بعد کہ معاملات ٹھیک ہوں۔ دنیا بھر سے تجارت کی جائے۔ دنیا بھر سے سرمایہ کاروں کو مدعو کیا جائے مگر یہ سب باتیں شام کی جنگ کے نتائج پر ہیں۔ جلد یا بدیر امریکہ کی سربراہی میں سعودی عرب اور ترکی، شام میں براہ راست مداخلت کریں گے اور اس طرح سے ایران کے ایک لاکھ سے زائد مذہبی جنگجو رضاکاروں کی زندگی خطرے میں پڑ جائے گی۔ کیا ایران کی طرف سے کوئی ردعمل گلف میں نہیں ہوگا؟ اس کا امکان زیادہ نظر آرہا ہے کہ موجودہ حالات حتمی طور پر سعودی عرب اور ایران کے درمیان جنگ کی طرف جائیں۔ امریکی سی آئی اے کی اطلاع ہے کہ سعودی عرب نے چھ سات ایٹم بم حاصل کئے ہیں جو ایران کے خلاف استعمال ہوسکتے ہیں یا ایران اس دھمکی کے بعد ہتھیار ڈال دے گا تاکہ ایٹمی اسلحہ استعمال نہ ہو۔