کوئٹہ: بلوچستان حکومت نے ثاقبہ حکیم خودکشی کیس کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔ بلوچستان ہائی کورٹ نے کمیشن بنائے جانے کے بعد ورثاء کی جانب سے دائر درخواست نمٹا دی۔ ثاقبہ حکیم خودکشی کیس کی سماعت بلوچستان ہائی کورٹ کے جج جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس شکیل بلوچ پرمشتمل ڈویژن بینچ نے کی۔ اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل عبدالطیف کاکڑ، ثاقبہ حکیم کے بھائی اعزازاللہ ، بلوچستان ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عبدالغنی ایڈووکیٹ، جنرل سیکریٹری نصیب اللہ ترین ، معروف قانون دان امان اللہ کنرانی اور صابرہ اسلام ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔ سماعت کے دوران عدالت نے استفسار کیا کہ جوڈیشل کمیشن سے متعلق کیا پیشرفت ہے۔ جس پر اسسٹنٹ ایڈوکیٹ جنرل بلوچستان عبدالطیف کاکڑ نے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کا نوٹیفکیشن عدالت میں پیش کیا اور بتایا کہ جوڈیشل کمیشن ڈسٹرکٹ اینڈسیشن جج قلعہ سیف اللہ آفتاب احمد لون پر مشتمل ہو گا جو تیس روز میں تحقیقات مکمل کر کے حکومت کو رپورٹ پیش کرے گا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ مطالبات کیلئے سڑکوں پر آکر احتجاج کرنا کوئی طریقہ نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ جس کا بھی کوئی مسئلہ ہو ، وہ قانون کو کچھ بھی نہیں سمجھتا بلکہ سڑکوں پر آکر احتجاج کرتے ہیں۔ اس کیلئے قانون کے راستے میں موجود ہیں۔ ثاقبہ حکیم بھی قانون کا راستہ اختیار کرتی تو آج یہ صورتحال نہ ہوتی۔ وکلاء کو لوگوں کو آگاہی دینی چاہیے۔ اگر ثاقبہ حکیم کو حق نہیں ملا تھا تو اس کیلئے عدالتیں موجود تھیں۔ اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل کی جانب سے جوڈیشل کمیشن سے متعلق نوٹیفکیشن پیش کرنے کے بعد عدالت نے ثاقبہ حکیم کے بھائی اوربلوچستان ہائیکورٹ بار کی جانب سے دائر درخواست کو نمٹا دیا۔ یاد رہے کہ مسلم باغ کی سیکنڈ ایئر کی طالبہ سترہ سالہ ثاقبہ حکیم نے کالج پرنسپل اور کلرک کے رویے کے خلاف بارہ فروری کو زہریلی دوا پی کر خودکشی کرلی تھی۔ ثاقبہ کے ورثاء نے کالج پرنسپل اور کلرک کے خلاف مقدمہ درج نہ ہونے اور جوڈیشل کمیشن نہ بنانے کے خلاف بلوچستان ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔