مظاہرہ کرنا اور احتجاج کرنا لوگوں کے قانونی حقوق میں شامل ہے۔ پرامن احتجاج، مظاہروں، جلسے اور جلوس پر کسی کو اعتراض نہیں ہے۔ بلکہ عام اور مہذب دنیا میں اس کو رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ مگر ہمارے ملک میں بلکہ بھارت، بنگلہ دیش میں بھی احتجاج اور مظاہروں کو انسانوں کو اذیت پہنچانے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ مظاہرے یا احتجاج کا مطلب توڑ پھوڑ ،جو اختلاف کرے اس کی پٹائی احتجاج اور مظاہرے کا لازمی جزو سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں احتجاج کا مطلب یہ ہے کہ سڑکیں ضرور بند کی جائیں، آمدورفت میں خلل ڈالا جائے اگر کوئی گاڑی انجانے میں احتجاج کے علاقے میں داخل ہوجائے اس پر حملہ کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے بلکہ بعض اوقات جلادیا جاتا ہے ہمارے یہاں پڑھے لکھے لوگ بھی احتجاج اور مظاہروں کے دوران توڑ پھوڑ، فائرنگ، پتھراؤ کو ضروری سمجھتے ہیں اور برملا یہ کہتے ہیں کہ ماحول کو بنانے کے لیے یہ سب کچھ ضروری ہے۔ ظلم کی بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں ریاست اور ریاستی ادارے ایسے غیر قانونی حرکات کو جائز سمجھنے لگتے ہیں کیونکہ ایسے واقعات اتنی زیادہ تعداد میں ہورہے ہیں کہ ان کو مظاہروں، جلسے اور جلوس کا حصہ سمجھا جانے لگا ہے اس لئے کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ گزشتہ روز ملک کے بعض شہروں میں پرتشدد مظاہرے اور احتجاج ہوئے جس میں پریس کلب، میڈیا ہاؤس، صحافیوں اور ان کی گاڑیوں کو نشانہ بنایا گیا اس کا مطلب یہ نکالا گیا کہ ممتاز قادری کو اخبار نویسوں نے پھانسی دی ہے۔ اس کو سپریم کورٹ کے حکم سے پھانسی نہیں ہوئی ہے۔ تقریباً تمام شہروں میں میڈیا ہاؤسز اور صحافیوں پر حملے ہوئے، حیدرآباد میں پریس کلب پر حملہ کیا گیا۔ صحافیوں نے بھاگ کر اپنی جانیں بچائیں۔ گاڑیوں کو توڑا گیا۔ اس سے صاف ظاہر ہوگیا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی نہیں ہے۔ ان سب کو کچھ بھی نہیں کہا جائے گا کہ انہوں نے صحافیوں، پریس کلب، پریس کی گاڑیوں، میڈیا ہاؤس پر دن بھر حملے کئے۔ قانون کو حرکت میں آنا چاہئے اور ان تمام لوگوں کو اس بات کا ذمہ دار ٹھہرانا چاہئے جنہوں نے جلسے، جلوس اور احتجاج کا انتظام کیا تھا۔ یہ جلسے اور جلوس کے منتظمین پر فرض ہے کہ ان کا احتجاج، جلسہ یا جلوس ہر حال میں پرامن ہو اور اگر کسی کو کوئی نقصان پہنچا تو جلوس کے منتظمین ہی اس کے ذمہ دار ہیں ان کے خلاف مقدمات بنائے جائیں اور ان کو سزائیں دی جائیں۔ ان پر جرمانے عائد کیے جائیں تاکہ لوگوں کے نقصانات کی تلافی ضرور ہو ورنہ حکومت اور انتظامیہ اتنی سخت ہو کہ کسی کو جلسہ کرنے اور جلوس نکالنے کی اجازت نہ دی جائے تاوقتیکہ وہ اس بات کی گارنٹی نہ دے کہ احتجاج پرامن ہوگا۔ ہمارا یہ مطالبہ ہے کہ اس بار حکومت اور انتظامیہ کسی درگزر سے کام نہ لے اور تمام ذمہ دار افراد کو تلاش کیا جائے، ان کو گرفتار کیا جائے اور ان کو قوانین کے مطابق سزائیں دی جائیں ایک بار یہ عمل شروع ہوا تو کوئی پارٹی یا گروہ یہ کوشش نہیں کرے گا کہ لوگوں کی جائیداد اور پراپرٹی کو نقصان پہنچایا جائے۔ احتجاج کرنے والوں کو ایک خاص مقام پر پابند کیا جائے کہ وہ ٹریفک کی روانی اور عام لوگوں کی زندگی میں کوئی خلل نہیں ڈالیں گے اور اگر انہوں نے ایسا کیا تو قانون کے مطابق سزا کے مستحق ہوں گے۔
پرتشدد مظاہروں کا کوئی جواز نہیں
وقتِ اشاعت : March 6 – 2016