|

وقتِ اشاعت :   March 6 – 2016

آسمان سے بلا گرتی ہے تو خانہ انوری پر۔ یہ فارسی کا مشہورمحاورہ ہے جو بلوچستان پر صادق آتی ہے کہ گزشتہ دس پندرہ سالوں میں 10قدرتی آفات نے بلوچستان میں تبائی مچائی ہر چیز تباہ و برباد ہوگیا۔ لوگوں کے نقصانات کی تلافی کبھی نہیں ہوئی کیونکہ حکومت نے بلوچستان کو کبھی اس ملک کا حصہ تسلیم نہیں کیا۔ اگر تسلیم کیا ہوتا تو اس کے ساتھ امتیازی سلوک روا نہ رکھا جاتا۔ آج کل طوفان اور بارشوں نے پورے بلوچستان، بلکہ ایرانی بلوچستان کو بھی اپنے نرغے میں لے رکھا ہے۔ ان طوفانی اور مسلسل بارشوں نے نظام زندگی کو متاثر کررکھا ہے۔ پیشنگوئی ہے کہ پورے ہفتے بارشیں ہوں گی اور لوگوں کو بعض علاقوں میں سیلابی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ حکومت کی طرف سے کوئی پیشگی انتظام ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا۔ این ڈی ایم اے کا بلوچستان سے کوئی تعلق نہیں البتہ ان کا یہ بیان ضرور آئے گا کہ ہم بلوچستان کے آفت زدہ لوگوں کے لیے کوئی بین الاقوامی امداد قبول نہیں کریں گے۔ گزشتہ 10بار قدرتی آفات میں یہی اعلان سامنے آیا۔ آواران کے علاقوں میں شدید زلزلے اور بڑی تباہی کے باوجود وزیراعلیٰ بلوچستان نے بین الاقوامی امداد کی اپیل کی تو وزیراعظم سے لے کر وفاقی اہلکاروں نے اس مطالبہ کو رد کردیا۔ اس کی وجہ سے آواران کے زلزلہ زدگان مشکلات سے دوچار ہیں اور اکثر لوگ علاقے سے نقل مکانی کرکے جاچکے ہیں کیونکہ حکومت نے انسان دوستی کا کوئی عملی ثبوت نہیں دیا البتہ مقامی لوگوں خصوصاً زلزلہ زدگان کے لیے زیادہ سے زیادہ مشکلات پیدا کیں۔ اس بار بھی لوگوں کو زیادہ توقعات نہیں رکھنی چاہئیں اگر خدانخواستہ کوئی بڑی تباہی آئی تو حکومت سب سے پہلے بیرونی امداد کے تمام دروازے بند کردے گی۔ بلکہ ہمارے ہمسایہ ممالک خصوصاً ایران اور عرب ممالک کو بھی امداد روانہ کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔گزشتہ سالوں کے دوران پیش آنے والے تمام آفات میں صوبے کی معیشت کو شدید نقصانات پہنچے لیکن ان سب کی وفاقی حکومت نے کبھی تلافی نہیں کی۔ مکران میں بڑے سیلاب کے بعد، ملک کے وزیراعظم جن کا تعلق بلوچستان سے تھا انہوں نے 10کروڑ روپے کی خیرات کا اعلان کیا اور بعد میں رفوچکر ہوگئے۔ اس کے 10سال بعد اس مد میں مزید 10کروڑ روپے دیئے گئے۔ آواران کے زلزلے کے بعد، ایک وفاقی وزیر نے 20کروڑ روپے کے وفاقی امداد کا اعلان کردیا۔ آج تک حکومت اور وزیر صاحب غائب ہیں۔ بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ اسلم رئیسانی نے اعلان کیا کہ نصیرآباد اور ملحقہ علاقوں میں سیلاب سے نقصانات کا اندازہ 200ارب روپے ہے۔ حکومت نے ایک ارب کی امداد کا اعلان کیا اور معیشت کے نقصانات کی تلافی بھی نہیں کی۔ چنانچہ ہر قدرتی آفت کے بعد بلوچستان میں زیادہ تباہی پھیلتی ہے۔ لوگ غریب سے غریب تر ہوتے جارہے ہیں اور حکومت کوئی ایسا کام سرانجام نہیں دیتی جس سے مقامی معیشت پرانے معیار پر بحال ہوجائے اور لوگ خوش حالی کی طرف گامزن ہوں۔ سیاسی پارٹیوں سے یہ گزارش ہے کہ وہ صوبائی اور وفاقی حکومتوں پر دباؤ بڑھائیں تاکہ تمام نقصانات کی تلافی ہو اور اگر زیادہ بڑی آفت آئے تو حکومت بین الاقوامی امداد کے راستے بند نہ کرے بلکہ لوگوں کی آسودگی کو اولیت دی جائے اور حکومت اپنی سیاست اپنے پاس رکھے لوگوں کو ایسی سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔