ون یونٹ کے ٹوٹنے اور تاریخی صوبوں کی 35سال بحالی کے بعد مقتدرہ کا صدارتی نظام سے عشق اور لگاؤ کم ہونے کا نام نہیں لیتا اور وفاقی پارلیمانی نظام حکومت سے نفرت کا اظہاربکثرت ہوتا رہتا ہے اکثر اوقات مقتدرہ کے حامی اور پروردہ لوگ اس بات کا اظہار کرتے رہتے ہیں کہ ملک میں صدارتی نظام رائج کیا جائے دوسرے الفاظ میں وہ آمریت اور فرد واحد کی حکمرانی کے حامی اور جمہوریت کے مخالف اور دشمن ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ عوام الناس کسی نہ کسی طریقے یا شکل میں فیصلہ سازی میں شامل ہوں۔ اکثر دانشور اور عقلمند لوگ کہتے ہیں کہ کمزور ترین جمہوریت آمریت سے بہتر ہے۔ حالیہ دنوں میں وفاق دشمنی اور وفاقی نظام سے نفرت کا اظہار مختلف طریقوں سے سامنے آتا رہا۔ کوشش یہ ہورہی ہے کہ منتخب صوبائی حکومت کو بلدیاتی ادارہ تک کے اختیارات نہ ملیں یہی مائنڈ سیٹ ہے جو 18ویں آئینی ترمیم پر عملدرآمد نہیں ہونے دیتی۔ سندھ کے وزیراعلیٰ نے شکایت کی ہے کہ ابھی تک 10وفاقی محکمے صوبوں کے حوالے نہیں کیے گئے، نہ ان کے اختیارات منتقل کئے گئے اور نہ ہی ان محکموں کے اثاثے صوبوں کو دیئے گئے۔ بلوچستان کو بھی بہت زیادہ شکایات ہیں خصوصاً معدنیات، تیل اور گیس کے شعبے میں۔ بلوچستان کو اس کے جائز قانونی حقوق اور حصے سے محروم رکھا جارہا ہے۔ مشترکہ مفادات کونسل کے ایجنڈے پر بلوچستان سے متعلق 20سے زائد معاملات التوا میں پڑے ہیں ، اس بابت وفاقی کوئی فیصلہ نہیں کررہاتاکہ ا س کا کنٹرول برقراررہے یعنی مرکزیت کو زیادہ سے زیادہ مضبوط اور صوبوں یا وفاقی اکائیوں کو مزید کمزور بنایا جائے۔ چنانچہ مختلف حیلے بہانوں سے وفاقی اداروں کو طاقت ور بنایا جارہا ہے، ان اداروں کی طرف سے سیاسی لیڈر شپ کو بلیک میل کیا جارہا ہے خوف و ہراس ہر شعبہ ہائے زندگی میں پھیلائی جارہی ہے تاکہ جائز صوبائی خودمختاری اور زیادہ طاقتور صوبوں کی بات نہ کی جائے۔ سندھ اور بلوچستان کو ٹارگٹ بنایا گیا ہے جہاں پر وفاقی ادارے من مانی کارروائیاں کررہے ہیں اور صوبائی حکومتیں ہراساں ہورہی ہیں۔ اس لئے ضروری ہے صوبوں کو زیادہ اختیارات دیئے جائیں اور وفاق کو کم سے کم ورنہ طاقتور وفاق بہت جلد آمریت نافذ کردے گا جو ملک کی تباہی کا سبب بن سکتا ہے لوگوں میں نفرتیں پھیل سکتی ہیں لہٰذا ضروری ہے کہ آئین میں مزید ترامیم کی جائیں اور وفاق کے پاس صرف امور خارجہ، دفاع اور کرنسی کے معاملات رہنے دیئے جائیں اور بقیہ تمام اختیارات صوبوں کو دیئے جائیں تاکہ حکمرانوں کے ٹاٹ بھاٹ ختم ہوں اور خوشحالی وفاق کے بجائے صوبوں اور عوام کا رخ کرے۔ ایم کیو ایم کے تنازعے میں سیاست میں واپس لائے گئے افراد کی جانب سے یہ مطالبہ کرایا گیا ہے کہ ملک میں صدارتی نظام قائم کیا جائے۔ دوسرے الفاظ میں مہاجروں کو صوبہ نہیں مل سکتا تو وفاقی پارلیمانی نظام کا ہی خاتمہ کردیا جائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں ان کو یہ یاد دہانی کرانا ضروری ہے کہ اس ملک کے ساتھ آمروں نے کیا کیا کھیل کھیلا ہے ان حکمرانوں میں زیادہ تر ریاست کے تنخواہ دار ملازم تھے ان میں ملک غلام محمد، اسکندر مرزا، ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف، یہ سب شخصی حکومتیں تھیں۔ پہلی بار 1970میں وفاقی اور پارلیمانی نظام بحال ہوا بلوچستان کو جو آدھا پاکستان ہے پہلی بار صوبائی درجہ دیا گیا۔ یہ تسلیم کیا گیا کہ بلوچستان بھی ایک اہم وفاقی اکائی ہے۔ باقی سارے دور میں آمرانہ نظام رائج رہا اور آمروں نے حکومت کی۔ موجودہ دور میں بھی صرف نام کی جمہوریت اور وفاقی نظام قائم ہے اصل طاقت وفاقی اداروں کے پاس ہے اور صوبے اس ملک کے دوسرے بلکہ تیسرے درجے کے شہری بن گئے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے صوبوں کے اندر وفاق اور وفاقی اداروں کی مداخلت بند کی جائے اور صوبوں کو حقیقی معنوں میں صوبائی خودمختاری دی جائے اور مرکز کے پاس کم سے کم اختیارات ہوں تاکہ وہ صوبوں کے معاملات میں مداخلت نہ کرسکے۔ خصوصاً سرکاری ملازمین کو اس کی اجازت نہیں دینی چاہئے کہ وہ صوبوں کے جائز حقوق کو پامال کریں۔
صدارتی نظام یا فرد واحد کی حکمرانی
وقتِ اشاعت : March 10 – 2016