پانی کا بحران نہیں لکھ سکتے کیونکہ پانی ایمان ہے اور مملکت خداداد میں ایمان کے بحران کے پس منظر میں فساد کا خدشہ ہے اور اہل ایمان خدا کی قدرتوں کو سات پردوں کے اندر بھی دریافت کرسکتے ہیں لیکن بلوچی میں پانی (آپ) غیرت کا نعم البدل ہے ۔ اب گوادر میں ناپید ہے ۔ تو خدا سے التجا کی جا سکتی ہے کہ وہ بلوچ پارلیمانی لیڈران کے آنکھ کے پانی کی حفاظت کرے کیونکہ آنکھ سے گرا پانی نہ تو اٹھایا جا سکتا ہے اور نہ ہی آنکھ میں دوبارہ پیدا کی جا سکتی ہے ۔ آنکڑھ ڈیم کا خیر ہے جونہی بارش ہوگی پھر بھر جائے گا! لیڈر کے آنکھ کے پانی کے بارے میں انہیں پارٹیوں کے ورکر یا گوادر کے پیاسے عوام ہی رائے دے سکتے ہیں ہم فقط اتنا جانتے ہیں کہ پانی کا یہ مسئلہ اس کوئی قدر گھمبیر مسئلہ نہیں کہ جس طرح اسے پیش کیا جارہا ہے بلوچستان میں پچھلے دس سالوں میں یہ تیسری حکومت ہے کہ گوادر کے پانی کے بحران کے سامنے بے بس نظر آرہی ہے ہیں حالانکہ وفاقی حکومت اپنی جگہ‘ اگر صوبائی حکومت جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسقط حکومت سے درخواست کرے تو مسقط حکومت چند دنوں میں گوادر کے پانی کے بحران کو حل کر سکتا ہے گوکہ ہمارے سابقہ مڈل کلاس وزیراعلیٰ یہ کر سکتے تھے کیونکہ ان کا تعلق بھی مکران سے تھا ۔ جلتا زمین کا وہ ٹکڑاہے جہاں پہ بھی آگ لگی ہوئی ہو اب معلوم نہیں کہ وزیراعلیٰ زمین کے اسی ٹکڑے سے تعلق رکھنے کے باوجود جلن سے نا واقف کیوں رہے؟یار لوگ کہتے ہیں کہ وہ اپنے دور حکومت میں ایمر جنسی اور میرٹ کے کا روراز میں اتنے مصروف رہے کہ ان کو اس دوران پتہ ہی نہیں چلا کہ مکران پورا بھوکا اور گوادر پیاسا ہے البتہ پارٹی ورکر اس سیاق و سباق میں اس لئے خوش رہے کہ کیچ میں ایک یونیورسٹی بن گئی ہے ایمر جنسی اورمیرٹ کے نام پر بنائی گئی اس یونیورسٹی میں کون لوگ پڑھیں گے؟ یہ ابھی طے ہونا باقی ہے کیونکہ مکران کا آدمی روٹی کے پیچھے جائے یا پڑھائی کے ؟جب سابقہ حکومت میں گوادر میں پانی کا بحران منظر عام پر آیا تو یہ ایمر جنسی اور میرٹ والے اولین صف میں کھڑے تحریک میں ہراول دستے کاکام سرانجام کررہے تھے کہ’’ بلوچستان میں نالائق‘ ان پڑھ ‘ ضمیر فروش ‘ گوادر کو بیچنے والے حکمرانوں نے گوادر کو اس مقام پر لاکھڑا کیا ہے‘‘ اب ایمر جنسی اور میرٹ والے ورکر سوال کر سکتے ہیں کہ وہ(ضمیر فروش) بلوچستان حکومت میں صرف وزیر رہے آپ کی تو پوری کی پوری حکومت رہی آپ نے کیا کیا۔۔۔۔؟ ایک دن جنگل کے تمام جانور اکٹھے ہوئے کہ جو جنگل میں ان کاسب سے بڑا دشمن ہے وہی ا ن کابادشاہ ہے انہوں نے دلیل دی کہ یہ بات منطق کے خلاف ہے کہ دشمن (شیر )کو بادشاہ منتخب کیا جائے کیونکہ بادشاہ تو وہ ہوتا ہے جو اپنی رعیت کی حفاظت کرے ‘‘لیکن ہمارا بادشاہ عجیب ہے جو ہمار اہی شکار کرتا ہے اور کہا ہے‘‘آج ’’ہم یہاں اس لئے اکٹھے ہوئے ہیں کہ اپنا الگ بادشاہ منتخب کریں جو ہماری حفاظت کرسکے اس پر بندر کھڑا ہوا اور کہنے لگا ’’جنگل میں ‘ میں آپ کے بادشاہ ہونے کا اہل ہوں کیونکہ شیر تمام جانوروں کا شکار کر سکتا ہے سوائے میرے ‘‘کچھ جانور نہیں مانے کہ بندر ان کی حفاظت نہیں کرسکتا لیکن بندر نے درختوں پر اچھل کود کرکے اپنے کراتب کا عملی مظاہرہ کرکے تمام جانوروں کو قائل کردیا۔ اس طرح بندر جنگل میں جانوروں کا بادشاہ منتخب ہوگیا دوسری جانب شیر جانوروں کے شکار سے باز نہیں آیا تنگ آ کر جانوروں نے دوبارہ میٹنگ بلائی اور بادشاہ بندرصاحب سے باز پرس کی کہ وہ شیر کو کیوں روک نہیں پارہا ۔ اس پر بندر گویا ہوا کہ ’’شیر جب بھی کوئی جانور شکار کرتا ہے تو میں (بندر) تمام جنگل سر پراٹھاتا ہوں شور وغل کرتا ہوں قلابازیاں کھاتا ہوں ۔ اچھل کود کرتا ہے اب شیر جب اپنا شکار چھوڑتا ہی نہیں تو میں( بندر)’’اور،، کیا کروں!!؟ ۔