سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد حکومت آئی جی سندھ کو تبدیل کردیا گیا، اس کے خلاف سنگین نوعیت کے الزامات تھے جن میں کرپشن اور رشوت ستانی سرفہرست تھے ان کی جگہ ایک نئے آئی جی کو تعینات کیا گیا ہے۔ سپاہی اور کم درجے کے افسران میں کرپشن ضرور تھی بلکہ زیادہ تھی مگر اعلیٰ ترین افسران کے خلاف کم شکایات تھیں ان الزامات کے بعد سپریم کورٹ کو شدید رد عمل دکھانی پڑی اور آئی جی صاحب سپریم کورٹ کے جج سے الجھ گئے جس کے بعد ان کی روانگی یقینی ہوگئی تھی۔ بہر حال یہ ایک افسوسناک امر ہے کہ سندھ پولیس کا سب سے بڑا جنرل کرپٹ نکلا اور اس کو عہدے سے ہٹانا پڑا۔ اب یہ بات یہاں ضروری ہوجاتی ہے کہ اچھے اور اعلیٰ ترین کردار کے افسران کو اہم ترین اور بڑے بڑے مناصب پر تعینات کیاجائے ۔ ایسے افسروں کو تعینات نہ کیاجائے جس کی ساکھ عوام میں خرب ہو اور ان پر کرپشن کے الزامات ہوں۔ سندھ پولیس میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے سب سے پہلے تھانہ کلچر کا خاتمہ کیاجائے اور عوامی نمائندوں کو یہ ذمہ داری دی جائے کہ وہ ان تھانوں کا تواتر کے ساتھ معائنہ کریں اور یہ یقین کر یں کہ وہاں قانون پر عمل ہورہا ہے ۔ سپریم کورٹ کو ایک رپورٹ میں یہ بتایا گیا کہ 100سے زیادہ پولیس افسران اور اہلکاروں پر مشتمل گروہ اغواء برائے تاوان میں ملوث ہے جو خصوصی طورپر کم ترین مدت میں زیادہ سے زیادہ تاوان حاصل کرتے آرہے ہیں یہ پولیس کے گروہ خوشحال اور امیر لوگوں کو کسی نہ کسی بہانے گرفتار کرتے ہیں اور بڑی رقم تاوان کی وصولی کے بعدان کو رہا کرتے ہیں ۔پولیس میں یہ خرابی جنرل ضیاء الحق کے دور میں زیادہ آئی جس کی وجہ یہ تھی کہ اعلیٰ ترین پولیس افسران رشوت لے کر پولیس میں بھرتی کرتے تھے ۔ ظاہر ہے جس پولیس افسر نے رشوت دے کر پوسٹ خریدی ہے وہ تو صرف اور صرف کرپشن ہی کرے گا، اس کی دلچسپی دوسرے کا موں میں نہیں ہوگی اور وہ سارا دن اور پورا مہینہ شکار کی تلاش میں سرگرداں رہے گا کہ اس کو زیادہ سے زیادہ رقم ملے۔ اس کی دوسری وجہ ایم کیو ایم ہے جس نے پولیس میں سیاسی بنیادوں پر اپنے کارکن بڑی تعداد میں بھرتی کیے، ان کی سرپرستی کی گئی اور خصوصاً ان کو روپیہ بٹورنے کے کام میں لگا دیا گیا ۔یہ کام جنرل پرویزمشرف کے دور میں ہوا ۔ بہر حال گزشتہ تین دہائیوں میں کوئی ایسا کام نہیں کیا گیا جس سے پولیس میں کرپشن کو کم سے کم کیا جا سکے اس سے زیادہ ظلم کی انتہا کیا ہو سکتی ہے کہ جرائم پیشہ افراد کی ایماء پر تھانے دار پولیس کی گاڑی میں ان کے مخالف کو پارٹی کے اندر سے اغواء کرکے لاتا ہے اور جرائم پیشہ افراد کے حوالے کرتا ہے اور وہ اپنے مخالف جرائم پیشہ شخص کو بے دردی سے قتل کردیتے ہیں، تھانے دار گرفتاری کے بعد ملزم کو تھانے نہیں لے جاتا بلکہ اس کے بعد دشمنوں کے حوالے کردیتا ہے یہ کرپشن اور لا قانونیت کی انتہا ہے جو سندھ پولیس فورس میں سرایت کر گئی ہے ۔ اس کا علاج مسلسل چوکس نگرانی ہے پولیس کے اہلکاروں پر عوام اور عوامی نمائندے کڑی نظر رکھیں اور کسی بھی خرابی کو دور کرنے کے لئے عوام اور حکومت کا تعاون ضروری ہے ۔ ہر محلے اور علاقے میں لوگ معائنہ ٹیم بنائیں لیکن وہ پولیس کے روز مرہ کے معمولات میں مداخلت نہ کریں بلکہ اپنی رپورٹ اعلیٰ حکام کو دیں اگر کسی کے خلاف پولیس نے زیادتی کی ہو ۔پولیس کی کارکرگی اچھی ہو تو اسی فیصد اچھی حکمرانی کے اہداف حاصل ہوجاتے ہیں ۔ سندھ کی حکومت پولیس اصلاحات نافذ کرے اور لوگوں کا اعتماد پولیس پر بحال کر دے تاکہ پولیس جرائم پیشہ افراد کے خلاف بھرپور کارروائی کرے۔ سیاسی رہنماء اس بات سے الگ رہیں اور جرائم پیشہ اور کرپٹ عناصر کی سرپرستی نہ کریں تاکہ لوگوں کو انصاف ملے ۔