کیچھی کینال حکمرانوں کی بے حسی کی علامت بنی ہوئی ہے ۔ یہ واحد ترقیاتی پروجیکٹ ہے جو بلوچستان کی معیشت میں شہہ رگ کی حیثیت رکھتی ہے ظلم یہ ہے کہ بے ایمان عناصر بلوچستان کی شہہ رگ کو نوچ رہے ہیں مجال ہے کہ کوئی حاکم ‘ وفاقی یا صوبائی ‘ اس کا نوٹس لے۔ صرف حکمران دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ ہم کچھی کینال پر اتنے ارب خرچ کررہے ہیں اس سے سات لاکھ سے زائد زمین سیراب ہوگی۔ اس منصوبے کا پہلا مرحلہ مکمل ہونے کو ہے یا ہوگیا ہے لیکن کسی نے پروجیکٹ کا معائنہ نہیں کیا کسی نے یہ نہیں دیکھا کہ اس پر کام منصوبہ کے مطابق ہورہا ہے یا نہیں۔ کسی کو کوئی دلچسپی نہیں کہ قوم اور ملک کے 102ارب روپے گٹر میں ڈالے جارہے ہیں ،کون کتنے ارب کھا گیا ہے کس کا حصہ کتنا ہے؟ ستر ارب روپے بہت سے لوگوں نے مل کر ہضم کیے ہوں گے، کوئی فرد واحد یا ایک ٹھیکے دار کی بس کی بات نہیں ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر اور دیدہ دلیری کے ساتھ گھپلے کرے ۔ اس میں حکمرانوں کی خواہشات اور احکامات ضرور شامل ہوں گے یہ ریاست کی ذمہ داری ہے ان میں سے ہر ایک شخص کی نہ صرف نشاندہی کرے بلکہ ان میں سے ہر ایک کو عبرت کا نشان بھی بنا دے کہ عوامی مفاد کے منصوبوں میں بد عنوانی کی کتنی بڑی سزا ہے ۔ ہمارا ابتداء ہی سے یہ موقف ہے کہ بلوچستان کا ہر میگا منصوبہ تیس سال سے زائد کا عرصہ لیتا ہے ۔ بولان میڈیکل کالج کا منصوبہ سردار عطاء اللہ مینگل کی حکومت میں شروع ہوا ، اس کا تخمینہ صرف ساڑھے سات کروڑ روپے لگایا گیا یہ منصوبہ تیس سال بعد مکمل ہوا اس کی لاگت ساڑھے سات کروڑ سے 132ارب کو پہنچ گئی ۔ بلوچستان میں کرپٹ حکمرانوں او رافسران اعلیٰ کی تمام تر ضروریات صوبے کے میگا منصوبوں سے پوری کی جاتی رہی ہیں ۔ اس لئے ان منصوبوں میں کرپشن کا کسی نے کبھی نوٹس نہیں لیا کیونکہ ان میں زیادہ طاقتور لوگ شامل تھے کیچھی کینال کا منصوبہ 1970ء کی دہائی میں سوچا گیا تھا جب مرحوم بزنجو گورنر کی حیثیت سے افسران اور اہلکاروں کو حکم دیا تھا کہ بلوچستان میں مزید پانی کے ذرائع تلاش کیے جائیں تاکہ زرعی ترقی کا عمل تیز تر ہو ، صوبہ غذائی اجناس کی پیداوار میں خود کفیل ہو ۔ چنانچہ اس وقت سیکرٹری آبپاشی جن کا تعلق سندھ صوبے سے تھا کیچھی کینال کا منصوبہ بنایا اور گورنر بزنجو کو پیش کیا۔ یہ منصوبہ صرف کاغذوں پر تھا اس پر عمل درآمد نہیں ہوا بلوچ قوم پرست سیاستدان خصوصاًنواب بگٹی اس پر عمل درآمد کا مطالبہ کرتے رہے ۔ 1991ء میں مسلم لیگ کی حکومت نے دریائے سندھ کے پانی کی تقسیم کا معاہدہ کیا جس میں شہبازشریف نے اہم ترین کردار ادا کیا لیکن اس معاہدے پر صرف بد نیتی کی بنیاد پر عمل نہیں ہوا ۔معاہدے کے تحت بلوچستان کو دریائے سندھ سے د س ہزار کیوسک اضافی پانی دینے کا فیصلہ ہوا چونکہ بلوچستان میں اضافی پانی کو استعمال کرنے کا بنیادی ڈھانچہ موجود نہیں تھا اس لئے کیچھی کینال کو پہلی بار حقیقت بنانے کا مرحلہ شروع ہوا۔ اس معاہدے کے بعد یہ اعلان ہوا کہ بلوچستان کو دس ہزار کیوسک پانی کچھی کینال کے ذریعے دیا جائے گا اس سے سات لاکھ سے زائد ایکڑ زرخیز زمین آباد ہوگی ۔ 1991ء سے لے کر 2016تک کچھی کینال تکمیل کے مراحل طے کررہی ہے ۔ 2003ء میں پہلی بارکچھی کینال کی تعمیر کے لئے فنڈ جاری ہوئے اور منصوبہ پر لاگت کا تخمینہ 31ارب روپے لگایا گیاتھا ۔2013ء میں اس کی لاگت 59ارب روپے ہوگئی ۔ گزشتہ سال دسمبر میں اس منصوبہ پر دوبارہ نظر ثانی ہوئی اوراس کی لاگت بڑھ کر 102 ارب کو پہنچ گئی ۔ اس کے ساتھ یہ بھی کہا گیا ہے کہ صرف پہلا مرحلہ مکمل ہوگیا ہے اگلے چند ہفتوں میں وزیراعظم پہلے مرحلے کا افتتاح کریں گے اس سے بگٹی قبائلی علاقے میں ایک لاکھ سے زائد زرخیز زمین آباد ہوگی ۔ اگر منصوبہ پراسی رفتار سے کام ہوتا رہاتو یہ مزید پچاس سال لے گا۔ عوام الناس موجودہ حکمرانوں سے اس سے زیادہ توقعات نہ رکھیں کہ بلوچستان غذائی پیداوار میں جلد خود کفیل ہوگا اور اس طرح سے لاکھوں لوگوں کو روزگار ملے گا۔ اسی طرح 2002ء میں گوادر پورٹ کے پہلے مرحلے کی تعمیر شروع ہوئی اور 2005میں مکمل ہوگئی ۔ مگر دوسرا مرحلہ آج تک شروع نہیں ہوا پہلے مرحلے میں صرف تین برتھیں تعمیر کی گئیں ۔گوادر پورٹ مکمل طورپر 72برتھوں پر مشتمل ہوگا جن کا اس صدی میں بننا نا ممکن نظر آتا ہے ۔ اسی طرح میرانی ڈیم تعمیر ضرور ہوا مگر اس کاپانی دس سال بعد استعمال میں آنے لگا ۔وجہ ،آبپاشی کے چینل کی تعمیر میں تاخیر کردی گئی ۔
کچھی کینال میں 70ارب روپے ہضم
وقتِ اشاعت : March 18 – 2016