|

وقتِ اشاعت :   March 22 – 2016

پرویزمشرف جب تک ملک کے اندر موجود تھے اور ان گنت مقدمات کا سامنا کررہے تھے تو انہوں نے یہ عام تاثر دیا تھا کہ وہ قریب المرگ ہیں ان کی صحت خراب ہے اور کسی بھی وقت کچھ ہوسکتا ہے اسی بہانے وہ کسی بھی عدالت میں پیش نہیں ہوئے اور ملک کے سابق سپہ سالار ہونے کا غلط فائدہ اٹھاتے رہے اور رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے رہے ۔ دبئی پہنچنے کے بعد وہ صحت مند توانا اور فوج کے سابق کمانڈر کا طرز عمل اختیار کرتے ہوئے اپنے علاج و معالجہ کو پس پشت ڈال دیا اور سیاسی اجلاس کی صدارت شروع کی، سیاسی معاملات پر اپنے قریبی ساتھیوں سے مشورہ کیا ۔ جب سے وہ عوامی زندگی میں نمو دار ہوئے ہیں انہوں نے اپنی دہری شخصیت کی تمام خصوصیات کو اجاگر کیا ہے چاہے وہ سیاچین کی جنگ ہو یا اس کے بعد بھارت کے ساتھ امن مذاکرات۔ بھرے اجلاس میں بھارتی وزیراعظم سے ہاتھ ملانے والا واقعہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ وہ دہری شخصیت کے مالک ہیں اتنی بڑی تباہی وبربادی کے بعد اور بذات خود اتنی ساری مشکلات کا ملک کے اندر سامنا کرنے کے بعد بھی وہ شخص اپنے آپ کو ملک کا محبوب ترین شخص گردانتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ وہ ملک کا ابھی بھی اہم ترین آدمی ہے اتنے سارے قتل اور غداری کے مقدمات جو سب کے سب عدالتوں میں ہیں وہ اب بھی سیاست کو اولیت دیتا ہے اور اپنی سابقہ حیثیت کا غلط استعمال کررہا ہے کہ سابق سپہ سالار اور صدر پاکستان ہونے کے بعد اس کو ہر چیز کی اجازت ہے وہ تمام ملکی قوانین سے بالا تر ہے اس کے ادارے کی مجبوری ہے کہ وہ اس کی عزت اور وقار کی حفاظت کرے گوکہ وہ شخص خود اپنی عزت اور وقار کی پروا نہیں کرتا۔ موصوف گزشتہ انتخابات کے دوران وعدہ خلافی کرتے ملک میں واپس آئے ، اس وقت کے فوجی افسران کے مشوروں کو بھی اہمیت نہیں دی اور جان بوجھ کر واپس آئے تاکہ اس کے ہمدرد اور خیر خواہ زیادہ مشکلات کا سامنا کریں بلکہ خود بھی شرمندگی کا سامنا کرتے رہے جب تک ملک میں رہے زبردست حفاظت میں رہے اور تربیت یافتہ گارڈ ان کی حفاظت پر مامور رہے اور ان کے گارڈز نے لوگوں سے احتجاج کا حق بھی چھینے کی کوشش کی اور مار پیٹ کر مظاہرین کو طاقت کے زور پر سرعام خاموش کرایا جب وہ مشرف کے خلاف احتجاج کررہے تھے ۔ ان تمام باتوں کا پرویزمشرف کی ذات پر کوئی اثر نہیں پڑا اور نہ ہی کبھی ان کو شرمندگی محسوس ہوئی کہ انسانیت کے خلاف اور ریاست پاکستان کے خلاف اس کے جرائم بہت زیادہ ہیں بلکہ ان افراد کو زیادہ شرمندگی محسوس ہوئی ہوگی جو ان کی سابقہ سرکاری اور قومی پوزیشن کا دفاع کررہے تھے ۔جہاں تک بلوچستان کا تعلق ہے یہاں عوام کو مایوسی ہوئی کہ ایک طاقتور شخص انصاف کا کٹہرا توڑ کر ملک سے چلاگیا آئین ‘ قانون‘ سزا اور جزاء صرف اور صرف غریبوں اور ناداروں کے لئے ہے طاقتور افراد کے لئے نہیں ۔ نواب بگٹی کے لواحقین کی یہ رائے ہے کہ نواب بگٹی اور ان کے ساتھیوں کی ہلاکتیں جنرل پرویزمشرف کے احکامات پر ہوئی جس کے وہ براہ راست ذمہ دار تھے ان کے خلاف نوابزادہ جمیل بگٹی نے ایف آئی آر داخل کی چونکہ وہ ملک کے ایک انتہائی طاقتور ترین انسان تھے اس لئے وہ قوانین سے بالا تر تھے ،وہ پاکستان میں لاقانونیت کی علامت تھے اور آج بھی ہیں مجال ہے کہ ان کے خلاف مقدمات کی تحقیقات کی گئیں ہوں ۔ خوفزدہ مقامی عدالت کے پاس ان کو بری کرنے کے علاوہ کوئی چارہ کا ر نہ تھا۔ ایک اور عدالت میں جج پر حملہ کیا گیا صرف اس لئے کہ ا س نے جنرل پرویزمشرف کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم صادر کردیا تھا ۔ لہذا آنے والے جج کے لئے صرف ایک ہی راستہ تھا کہ وہ ان کو بری کریں اس فیصلے کے خلاف جمیل بگٹی نے بلوچستان ہائی کورٹ میں اپیل داخل کی ہے۔ بہر حال 2002ء سے لے کر آج تک پورے 14سالوں میں بلوچستان اور اس کے عوام مشکلات کا شکار ہیں اوران کی وجہ پرویزمشرف ہیں ان کو بلوچ قوم پر ست رہنماؤں کے سامنے احساس کمتری تھی جس کی وجہ سے انہوں نے بلوچستان بھر میں یہ کھیل رچایا جو گزشتہ چودہ سال سے جاری ہے ۔ اگر ان کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیاجائے تو لوگوں کا عدالتی اور آئینی نظام پر اعتماد بحال ہوسکتاہے ۔