ٹنڈو محمد خان میں زہریلی شراب پینے سے 37افراد ہلاک ہوگئے ۔ ان میں اکثریت ہندو غریب گھرانے کے لوگ تھے اور ان میں تین خواتین بھی شامل ہیں ۔ ان ہلاکتوں کے بعد پورے علاقے میں کہرام مچ گیا اور لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور زبردست احتجاج کیا ۔ احتجاج کے دوران مظاہرین شراب کے بھٹے کے مالک کے مکان کو آگ لگا دی اوروہ موقع سے فرار ہوگئے ۔ پولیس نے مقدمہ درج کر لیا ملزم کی تلاش جاری ہے ادھر اطلاع ملنے پر سندھ کے وزیراعلیٰ نے علاقے کے پولیس سربراہ سمیت تھانے دار کو فوری طورپر معطل کردیا اور ان کے خلاف تحقیقات کا حکم دے دیا نیزسندھ اسمبلی کے اجلاس میں زبردست ہنگامہ ہوا اور متعلقہ وزیر کو ہدف تنقید بنایا گیا ، ان پر الزام لگایا گیا کہ وہ انسانی جانیں بچانے میں ناکام رہیں۔ تنقید کرنے والوں میں اسمبلی کے اسپیکر آغاسراج درانی بھی شامل تھے اور انہوں نے پولیس کو یہاں تک مشورہ دیا کہ وہ برقعہ پہن کر چھاپے مارے کیونکہ کھلے عام چھاپے مارنے سے ملزمان فرار ہوجائیں گے ۔ سندھ میں یہ پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے قبل 1996ء میں زہریلی شراب پینے سے حیدر آباد میں 54افراد ہلاک ہوئے تھے اس کے بعد 2014ء میں چالیس افراد ہلاک ہوئے تھے ۔ پی پی پی حکومت کے دوران لیاری کراچی میں زہریلی شراب پینے سے سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے ۔ اس سے زیادہ معذور ہوگئے کچھ اندھے ہوگئے ۔ اسی طرح ملزمان فرار اور کارروائی صرف ایکسائز پولیس کے خلاف ہوئی ۔ حالانکہ وہ اڈے مقامی پولیس کی سرپرستی میں چلتے رہے۔ شراب کے غیر قانونی بھٹے منظم جرائم کا حصہ ہیں یہ ایک منظم کاروبار ہے جو پولیس کی سرپرستی کے بغیرمیں چل نہیں سکتا۔ شکایت پر پولیس شکایت کرنے والوں کو نشانہ بناتی ہے اور کھلے عام ایسے لوگوں کے خلاف تادیبی کارروائی کرتی ہے جو منظم جرائم کی نشاندہی کرتی ہے یا اہل محلہ اس پر احتجاج کرتے ہیں وجہ یہ ہے کہ منظم جرائم ہی پولیس کی اضافی آمدنی کا ذریعہ ہیں ۔ منظم جرائم کے اڈوں سے لیاری پولیس سب ڈویژن سے 1981ء میں پچاس لاکھ روپے ماہانہ جمع ہوئے تھے جو تھانے دار سے لیکر اعلیٰ ترین افسران میں تقسیم ہوتے تھے اس طرح سے پولیس نے ہمیشہ لیاری میں منظم جرائم کی سرپرستی کی اور دونوں ہاتھوں سے دولت لوٹی لوگوں کی شکایات کو نظر انداز کیا گیا۔ اخبارات نے یہ لکھا تھا کہ اگر پولیس منظم جرائم کی سرپرستی کرتی رہی تو ایک دن معاملہ ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ جرائم پیشہ افراد منڈی میں موجود جدید ترین اسلحہ خریدیں گے اور پولیس کو پورے لیاری سے بے دخل کردیں گے گینگ وار کی صورت میں یہی کچھ ہوا ۔ اس میں سیاست بھی داخل ہوگئی ملک کی ایک بہت بڑی پارٹی نے بے شرمی کے ساتھ یہ فیصلہ جرائم پیشہ افراد پر چھوڑ دیا کہ لیاری سے کون کون قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے امیدوار ہوں ۔ بے نظیر نے 1988ء کے انتخابات میں پچیس ہزار ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی جرائم پیشہ افراد نے پولنگ اسٹیشن پر قبضہ کر غیر معروف شخص کو پچاس ہزار ووٹ دلا دیا ۔ اس طرح سے ثابت کیا کہ جرائم پیشہ افراد سیاسی افراد کی سرپرستی زیادہ طاقتور اور مقبول ہے ۔ ابھی تک لیاری اور ملک کے دیگر علاقوں میں منظم جرائم کی سرپرستی پولیس اور سرکاری اہلکار یا سیاسی لوگ کررہے ہیں ان میں اغواء برائے تاوان ‘ گاڑیاں چھیننے اور چوری کرنے کے واردات‘ ڈاکے ‘ بنکوں میں ڈاکے ‘ زمینوں خصوصاً سرکاری زمینوں پر قبضے اور بھتہ وصولی شامل ہیں بعض جرائم پیشہ ذہنیت کے لوگ جو سیاست میں موجود ہیں وہی لوگ ان کی سرپرستی بھی کررہے ہیں آج کل تو دہشت گرد تنظیمیں اغواء برائے تاوان اور بنک ڈکیتی میں ملوث پائے گئے ہیں پولیس نے ایسے کئی ایک گروہ گرفتار بھی کر لیے ہیں جن کا تعلق دہشت گرد تنظیموں سے تھا حکومت پاکستان نے باقاعدہ حکومت افغانستان سے مطالبہ کیا ہے کہ افغانستان کے موبائل سم کی فون کی رسائی کو افغان سرحد تک محدود کیا جائے کیونکہ جرائم پیشہ افراد افغان فون بھتہ وصول کرنے کیلئے استعمال کررہے ہیں۔ ظاہر ہے پشاورکے تمام خطے میں طالبان زیادہ سے زیادہ وسائل جمع کرسکتے ہیں اور مملکت پاکستان کے لئے مشکلات پیدا کر سکتے ہیں لہذا منظم جرائم کا خاتمہ ضروری ہے ۔ یہ عوام الناس کی ایک بڑی خدمت ہوگی ۔
شراب کے بھٹے اور منظم جرائم
وقتِ اشاعت : March 24 – 2016