ایرانی صدر کا دورہ پاکستان بخیر خوبی مکمل ہوگیا ۔ دونوں ممالک کے رہنماؤں میں باہمی دلچسپی کے امورپر بات چیت ہوئی اور اس بات پراتفاق کیا گیا کہ دونوں برادر ہمسایہ ممالک کے درمیان تعلقات کو مزید مستحکم بنایا جائے تاکہ دونوں ملکوں کے عوام بھی اس سے مستفید ہوں ۔ تعلقات صرف سرکاری سطح پر محدود نہیں رہنے چائییں بلکہ ان کو وسعت دی جائے تاکہ دو طرفہ تجارت اور آمد و رفت میں اضافہ ہو ۔ اس مقصد کے لئے ہم نے ہمیشہ ایران ‘ پاکستان گیس پائپ لائن کی تعمیر کی حمایت کی اور یہ مطالبہ کیا تھا کہ اس کو جلد سے جلد مکمل کیا جائے ۔ بعض مفاد پرست عناصر نے اس منصوبے کے خلاف سازشیں کیں اور کئی سال تک اس پر عمل درآمد نہیں ہونے دیا ۔ اس طرح ایران کی خواہش کے باوجود بھی کوئٹہ ‘ زاہدان ریلوے لائن کو بین الاقوامی معیار کے مطابق بنانے کا عمل ابھی تک شروع نہیں ہوا جس کی وجہ سے پاکستان ‘ ایران تجارت یا پاکستان اور ترکی کے درمیان تجارت میں توسیع نہ ہو سکی ۔ کوئٹہ ‘ زاہدان ریلوے سیکٹر واحد ذریعہ ہے جو زمینی راستے سے پاکستان کو یورپ سے ملائے گا اور اس طرح پاکستان ‘ یورپی ممالک سے زمینی اور ریل کے ذریعے بڑے پیمانے پر تجارت کر سکے گا۔ ابھی تک حکومت پاکستان ملک کی مجموعی ترقی کا دعویٰ کرتی نظر آتی ہے لیکن یہ اہم منصوبہ ان کی نظر سے نہیں گزرا کہ کم سے کم لاگت پر پاکستان کے دور دراز علاقوں سے تجارتی سامان دنیا کے ملکوں کو ریل کے ذریعے بھیجا جا سکے گا۔ ایک دوسرا مسئلہ ایران سے بجلی کی خریداری ہے ایران 74ہزار میگا واٹ بجلی پید اکررہا ہے اور دنیا کے آٹھ پڑوسی ممالک کو بجلی فروخت کررہا ہے پاکستان بھی مکران کے لئے بجلی ایران سے محدود پیمانے پر خرید رہا ہے ۔ معلوم نہیں کیا وجہ ہے کہ پاکستان ایران سے بڑے پیمانے پربجلی کیوں نہیں خرید رہا اس کی کیا وجوہات ہیں عوام الناس کو آج تک کچھ نہیں بتایا گیابلکہ ہمارے ملک کے ایک بہت ہی ذمہ دار شخص ہمارے سابق سینیٹر حاجی لشکری رئیسانی کو یہ بتایا گیاتھا کہ ایران کے پاس بجلی نہیں ہے بجلی نہ خریدنے کا بہانہ جھوٹ پر مبنی تھا یا بلوچستان کے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے برابر تھا ۔ تیسرا مسئلہ گوادر اور چاہ بہار دونوں بندر گاہوں کے ترقی کے رفتار میں یکسانیت پیدا کی جائے تاکہ دونوں ایک ساتھ ترقی کریں چاہ بہار میں اس وقت دنیا کے ممالک 150ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کررہے ہیں چاہ بہار میں دو اسٹیل ملز لگائے جارہے ہیں ایک جاپان اور دوسرا جنوبی کوریا ‘ دونوں کی مجموعی پیداوار 36لاکھ ٹن اسٹیل سالانہ ہوگی جبکہ کراچی اسٹیل ملز کی پیداوار صرف ایک لاکھ ٹن ہے ۔ دوسری طرف کسی بھی بڑے کمپنی یا ملک نے اس خواہش کا اظہار نہیں کیا کہ وہ گوادر میں سرمایہ کاری کریں۔ حال ہی یہ اعلان ہوا ہے کہ چین گوادر کا بین الاقوامی ائیر پورٹ تعمیر کرے گا باقی معاملات ابھی انتہائی ابتدائی مراحل میں ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستانی بلوچستان کو بھی اسی لگن اور تیز رفتاری سے ترقی دی جائے جیسا کہ ایرانی بلوچستان میں ہورہا ہے ۔ لاکھوں بلوچ اب ایرانی بلوچستان کا رخ کررہے ہیں جہاں پر روزگار کے زیادہ اچھے مواقع ہیں ۔