’’ہم ماضی کے وعدے وعید نہیں بھولے جو ہم سے کئے گئے۔ حبکو کمپنی کی جانب سے 25سالوں میں نہ علاقے کو بجلی فراہم کی گئی ،نہ صحت کی سہولیات اور نہ ہی روزگار فراہم کی گئی۔ اب ہمیں انکی باتوں پر ایک فیصد یقین نہیں رہا‘‘۔ گوٹھ قادربخش پالاری محلے کا رہائشی مراد بخش حبکو کول پاور پروجیکٹ کے حوالے سے محکمہ ماحولیات کی جانب سے پبلک ہیئرنگ کیس کی شنوائی کے لئے لیڈا آڈیٹوریم کا رخ کر چکے ہیں جبکہ گیٹ سے باہر کھڑے سیکورٹی اہلکار مرادبخش سمیت سینکڑوں افراد کو اندر جانے کی اجازت نہیں دے رہے جنہیں خود محکمہ ماحولیات نے اپنی آواز پہنچانے کے لئے لیڈا آڈیٹوریم حب مدعو کیا ہے۔ عوام کی ایک بڑی تعداد پروجیکٹ کے خلاف نعرے بازی کر رہی ہے اور یہ مجمع 3حصوں میں بٹی ہوئی ہے۔ایک گروپ بھوتانی حمایت یافتہ جو کول پاور پروجیکٹ کے خلاف نعرے لگارہے تھے۔ جبکہ دوسرا گروپ جام کمال کا تھا جو اس پروجیکٹ اور جام کی حمایت میں یہاں موجود تھے جبکہ تیسری جماعت پیپلز پارٹی کی ہے جو کہ اسکی مخالفت بھی کر رہی ہے اور ساتھ ساتھ یہ مؤقف بھی انکی جانب سے سامنے آرہا ہے کہ اگر کول پاور پلانٹ لگائی جائے گی تو اس میں مقامی افراد کو روزگار کی فراہمی اور علاقے کو بجلی کی فراہمی کو یقینی بنائی جائے جبکہ نیشنل پارٹی کے چند کارکن بھی اس مجمع میں حیران کن طور پر نظر آئے جو اس پروجیکٹ کی مخالفت کرتے ہوئے نظر آئے۔ مراد بخش کا کہنا ہے۔ ’’ ہمارے ساتھ عباس گوٹھ اور الانہ گوٹھ کے لوگ بھی شامل ہیں جہاں یہ کول پلانٹ لگائے جانے ہیں یہ ہمارے گاؤں سے بالکل قریب پڑتا ہے۔ 1989کو جب اس کمپنی نے علاقے کے وڈیرے غلام محمد گدور کے ساتھ معاہدہ کیا تو اس معاہدے میں شامل تھا کہ 25فیصد روزگار کے مواقع مقامی لوگوں کے لئے رکھے جائیں گے۔ صحت ، تعلیم کے مراکز قائم کرنے کے ساتھ ساتھ علاقے کو بجلی کی فراہمی عمل میں لائی جائے گی لیکن 25سال گزر جانے کے باوجود انکے وعدے وفا نہ ہو سکے تو اب ہم کس طرح باور کرلیں کہ یہی ادارہ علاقے کو سہولت فراہم کرے گی‘‘۔ مراد بخش کے علاقے میں حبکو کمپنی کی آمد سے قبل وہاں کے مکین بیماریوں کے نام سے ناواقف تھے لیکن اب وہاں ہیپاٹائٹس، پھیپڑوں و آنکھوں کی بیماریوں کے ساتھ ساتھ لوگ کینسر کے مرض میں مبتلا ہیں۔ نہ ہی وہاں اس ادارے کی جانب سے صحت کا بڑا مرکز قائم کیا گیا اور نہ ہی انکی زندگی میں خوشگوار تبدیلی آئی۔ وہ آج بھی اپنے پھٹے پرانے کپڑوں کے ساتھ اپنی موجودہ اور آنے والی نسلوں کو تباہی سے بچانے کے لئے احتجاج ریکارڑ کرانے لیڈا آڈیٹوریم کے باہر موجود ہیں لیکن انکی آواز لیڈا کی آڈیٹوریم سے باہر ہی گونج رہی ہے کیونکہ اسے اندر جانے کی اجازت نہیں دی جارہی۔ وردیوں میں ملبوس سپاہی انہیں کسی بھی صورت اندر جانے سے روکنے کے لئے الرٹ ہیں۔ میں نے اپنا تعارف بطور صحافی کرواتے ہوئے اندر جانے کی اجازت چاہی تو سپاہی نے آنکھیں دکھاتے ہوئے کہا ’’ کسی صحافی (محافی) کو اندر جانے کی اجازت نہیں، جو گئے ہیں وہی کافی ہیں‘‘۔ میں نے عافیت اسی میں جانی کہ خاموش ہی رہا جائے کیونکہ اس سے پہلے مجھے اطلاع ملی تھی ایک سپاہی نے بدتمیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سابق ڈپٹی اسپیکر صوبائی اسمبلی محمد اسلم بھوتانی کو یہ کہہ کر گریبان سے پکڑا تھا کہ زیادہ افراد اندر لے جانے کی اجازت نہیں۔ارے بھائی اگر اجازت نہیں تھی تو اتنا ہنگامہ کھڑا کرنے کی کیا ضرورت تھی جب پبلک ہیئرنگ ہوتی ہے تو اس میں عوام آہی جاتی ہے۔ اس سے محکمہ ماحولیات کی انتظامیہ کی نااہلی عیاں تھی جس نے سیکورٹی اہلکاروں کو اتنا بااختیار بنا رکھا تھا کہ عوامی عدالت میں عوام کوہی اپنی آواز پہنچانے سے روکا جا سکے جس کے عتاب میں مجھ جیسے عام قلمکار کو آنا پڑا۔ساتھ میں علاقے کے وہ عوام جنکی زندگیوں کے فیصلے ہونے تھے انہیں اندر جانے سے روک دیا گیا یعنی شادی میں لڑکی کی رضامندی پوچھے بغیر اسکی نکاح کرائی جائے۔ احتجاجی مظاہرین میں شامل ایک پیپلز پارٹی حب کے رہنماء حاجی صالح جتک ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ انکی جماعت کی جانب سے وفاق کی سطح پر ایسے پراجیکٹ کی مخالفت ابھی تک سامنے نہیں آئی ہے تو کیا مقامی سطح پر پیپلزپارٹی کا مؤقف مرکز کی مخالفت تو نہیں ’’ نہیں ہمارا مرکز کا مؤقف ایک ہی ہے ہم نے اسکے خلاف آواز اٹھائی ہے اور یہ چین بنے گی جو مرکز تک پہنچے گی۔ ہم چاہتے ہیں کہ علاقے میں ترقی ہو اور وہ حقیقی معنوں میں علاقے کے عوام کی فلاح کے لئے ہو‘‘۔ پبلک ہیئرنگ پانچ گھنٹے پر محیط رہا۔ مجھے ان پانچ گھنٹوں میں باہر ہی انتظار کرنا پڑا۔ غنیمت اسی میں جانی کہ مزید عام افراد کی رائے سے استفادہ کیا جائے۔ باہر کھڑے مظاہرین جنکے ہاتھوں میں پلے کارڈ اور بینر تھے جن پر ’’ کول پاور پروجیکٹ نامنظور‘‘، ’’ کول پاور پروجیکٹ کی مکمل حمایت کرتے ہیں‘‘، ’’ موت نہیں زندگی چاہئے‘‘، ’’ چلو چلو لیڈا چلو‘‘ کے الفاظ درج تھے۔ اور ساتھ ساتھ جام ، بھوتانی اور شہید رانی کے حق میں نعرے باآواز بلند ہوتے رہے۔ انہی کارکنوں میں سے ایک کارکن لاکھڑا سے تعلق رکھنے والے ادھیڑ عمر کے محمد خان تھے جنکے ہاتھ میں جام کمال کی تصویری بینر نمایاں تھا۔سوال پوچھا گیا کہ پروجیکٹ کے حق میں ہیں یا مخالفت میں۔ ’’ ہم یہاں جام بابا کو سپورٹ کرنے آئے ہیں۔ ہمیں یقین ہے وہ ہمارے لئے برا نہیں سوچتے‘‘۔ دوسرا سوال یہ تھا بابا کیا آپ اس پراجیکٹ کے فوائد اور نقصانات بتا سکتے ہیں لیکن بابا یہ بتانے سے قاصر رہے۔ احتجاجی مظاہرین کے نعروں سے کبھی کبھار یوں بھی لگتا تھا جیسے وہ کوئی سیاسی جلسہ گاہ میں اپنی رہنماؤں کی حمایت میں نعرے لگارہے ہوں۔ ان میں سے بہت سے ایسے افراد بھی تھے جو اپنی یہاں آمد کے بارے میں ناآشنا تھا۔ انہیں صرف اتنا پتہ تھا کہ ہم اپنے سربراہ کو سپورٹ کرنے یہاں آئے ہیں۔اسی اثناء لیڈا مین آفس کے باہر لگائے گئے ایک پرانے بینر جس پر حبکو کی جانب سے ایک فری کیمپ کا ذکر درج تھا ’’ بال، خارش، داغ دھبے، الرجی، کیل مہاسے کا علاج فلانے تاریخ کو کیا جائیگا‘‘ یعنی یہ وہ بیماریاں ہیں جو فضاء کو آلودہ اور صحت کو نقصان پہنچانے والے اداروں کی کارناموں میں سے ہیں جو اسکی سدباب کے لئے ایسے فری کیمپوں کا انعقاد کرتے ہیں۔ پانچ گھنٹے کی طویل انتظار کے بعد ہمیں معلومات ملنے شروع ہو گئیں کہ پبلک ہیئرنگ کیس میں پراجیکٹ مخالف گروپ اپنے دلائل مضبوط انداز میں دینے میں کامیاب رہا ہے۔ محکمہ ماحولیات نے بھی اس بات کا اعتراف کر لیا ہے کہ انہیں 2ہزار درخواستیں اس پراجیکٹ کی مخالفت میں ملی ہیں جبکہ ایک درخواست بھی اسکے حق میں نہیں آئی ہے۔بظاہر موجودہ صورتحال سے اندازہ لگانا آسان ہوگا اگرعوامی رائے اور مخالفت کو مدنظر رکھا جائے تو جس طرح اس پروجیکٹ کو اسلام آباد میں لانچ کرنے کو مسترد کیا گیا تو یہاں بھی یہ مسترد کیا جا سکتا ہے لیکن تمام تر فیصلے کا اختیار اب محکمہ ماحولیات کے پاس ہے ۔ آیا وہ اس پراجیکٹ کو NOCنہ دے کر ایک نیا باب رقم کرے گی یا اپنی ماضی کی داغدار دامن کو مزید داغدار کرے گی۔
’’ہمیں اب اعتماد نہیں رہا‘‘
وقتِ اشاعت : March 30 – 2016