ہمارے یہاں میڈیا میں سنسنی خیز خبرکی اہمیت بہت زیادہ ہے‘ مگر اس سنسنی خیزیت پر گھنٹوں گفتگو کرنے والے میڈیا پرسنز کی کمی بھی نہیں‘ ایڈیٹوریل پالیسی کے برعکس خاص کر الیکٹرونک میڈیا پر خبرمیں سنسنی نہ ہو تواس کی افادیت ان کے نزدیک کم ہی ہوتی ہے‘ نیوزچینلز دیکھنے والے افراد کی نفسیات کو بھی اسی جانب راغب کرنے میں بڑا کردار الیکٹرانک میڈیا کا ہی ہے۔ ابھی کچھ وقت ہی نہیں گزرا کہ میڈیا ورکرز کے زخم مندمل ہوجائیں جو ’’بول ٹی وی ‘‘ نیٹ ورک کے حوالے سے ان کے سینے میں لگے ‘ جنہوں نے بہترین آفرز دیکھ کر بول میں چلے گئے تھے۔ سب سے پہلے ایسی نفسیات میڈیا ورکرز کی بنائی گئی کہ اس میڈیا گروپ کے آنے سے اُن کی زندگی میں بہت بڑی تبدیلی آئے گی اور شاید آبھی جاتی مگر غیر ملکی خبر رساں ادارے کی ایک رپورٹ نے ’’بول‘‘ کا ڈبا ’’گول‘‘ کردیا۔ جس طرح رپورٹ کو غیر ملکی خبررساں ادارے نے اپنے اخبار میں شائع کیا مگر اُس سے زیادہ اس خبر کو سنسنی خیز بناتے ہوئے ہماری میڈیا نے ساری دن شہ سرخیوں میں رکھا‘ کرنٹ افیئرز کے پروگرامز بھی ہفتوں تک چلتے رہے۔ ایگزیکٹ اسکینڈل کیس کے بعد ’’بول‘‘ کی بندش یقینی تھی اور اسی کے ساتھ ہی ’’بول‘‘ پھر نہ بول سکا۔ بول ٹی وی کا شوشا چلتے پھرتے ہر جگہ نظر آتا رہا شاید ہی کسی میڈیا گروپ کا چرچا اور شوشا اس طرح ہو‘ مگر اس کی بندش سے سب سے زیادہ پریشانی کا سامنا ’’بول ٹی وی‘‘ سے جڑے ورکرز کو کرنا پڑا اوروہ صدمے سے دوچار ہوئے۔ اب ملک کے معروف تاجر بحریہ ٹاؤن کے نام سے پہچانے والی شخصیت ملک ریاض نے حال ہی میں بہت بڑامیڈیا گروپ میدان میں لانے کا فیصلہ کیا ہے‘ یقیناًاب بھی میڈیا ورکرز کی توجہ شعیب شیخ کے بعد ملک ریاض پر ہو گی اور تمام ورکرز کی کوشش ہوگی کہ انہیں بہترین تنخواہوں کے ساتھ مراعات ملیں ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک ریاض کے نئے میڈیا گروپ کے اعلان کے بعدنیا پنڈورا باکس کھل جائے گا اور ایک میڈیا پر ایک بہت بڑا محاذ سامنے آئے گا۔ ’’بول‘‘ ٹی وی نیٹ ورک کے زخم ابھی تازہ ہیں مگر میڈیا ورکرز کی توجہ کا مرکز ملک ریاض بنے گا۔ ملک ریاض اس سے قبل خبروں میں صرف کرپشن کے حوالے سے شہ سرخیوں میں نظر آتے تھے جن کے مد مقابل سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور اس کے صاحبزادے ارسلان افتخار تھے‘ اب کی بار ملک ریاض بمقابلہ میڈیا گروپ کا ہی ہوگا کیونکہ ہمارے یہاں میڈیا میں عدم برداشت بہت زیادہ ہی دیکھنے کو ملتا ہے جس طرح ’’بول‘‘ ٹی وی کے حوالے سے ہمیں دیکھنے کو ملا۔ شعیب شیخ کا مقصد میڈیا صنعت میں قدم رکھنا،پاکستان کے بہتر امیج سامنے لانااور میڈیا ورکرز کی زندگی کو تبدیل کرنا تھا مگر ملک ریاض کا کہنا ہے کہ انہیں میڈیا کے ذریعے بلیک میل کیاجارہا ہے اس لیے وہ میڈیا کے ہی ذریعے مقابلہ کرینگے‘ بہرحال ملک ریاض جب میدان عمل میں آئینگے تو یہ یقینی بات ہے کہ اسے شاید ماضی سے زیادہ سخت میڈیا وار کا سامنا کرنا پڑے گا شاید ایک بہت بڑی اسٹوری ملک ریاض کے متعلق سامنے آجائے اور وہ خبر نہ صرف شہ سرخیوں بلکہ کرنٹ افیئرز کا حصہ بنے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس بار جیت کس کی ہوگی؟ مگر دونوں اطراف سرمایہ دار ہی ہیں اور یہ جنگ بھی انہی کے درمیان ہوگا بس خدا خیر کرے کہ اس بار میڈیا ورکرز اپنی ملازمتوں سے ہاتھ نہ دھو بیٹھیں اور پھر وہی بیانات سیاستدانوں کی جانب سے نہ آئیں کہ ہم مظلوموں کے ساتھ ہیں جو ’’بول‘‘ کی بندش کے وقت سا منے آتا رہا۔
نیاپنڈوراباکس یا میڈیا محاذ……؟
وقتِ اشاعت : March 31 – 2016