|

وقتِ اشاعت :   April 1 – 2016

بلوچستان کے وسائل پر سب سے پہلے یہاں کے عوام کا حق ہے اور بلوچستان کو حق حاکمیت دی جائے‘ یہ وہ خوش کن نعرہ ہے جو 67 سالوں سے جاری ہے مگر آج بھی ہمیں یہ تازہ لگتا ہے۔ دہائیوں پر محیط بلوچستان کے مسائل پر پاکستان کی سب سے بڑی اور بلوچستان کے قوم پرست جماعتوں کے بیانات ماضی کی طرح آج بھی چند لفظوں کے ہیرپھیر سے وہی ہیں۔ بلوچستان کو سمجھنے کی ضرورت ہے‘ بلوچستان کی پسماندگی کا خاتمہ کرکے ہی امن وخوشحالی آسکتی ہے‘بلوچستان کے بغیر پاکستان ادھورا ہے‘ بلوچستان پاکستان کی ترقی کی کنجی ہے‘ ایسے بے شمار جملے تقاریر کرتے وقت بڑے بڑے لیڈران ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں مگر یہ اُس وقت زیادہ شور کرتے ہیں جب اقتدار کی کرسی اُن کے پاس نہیں ہوتی‘ اقتدار پر براجمان ہونے کے بعد ان تمام جملوں کی الٹ باتیں سامنے آتی ہیں‘ بلوچستان کی ترقی میں حائل رکاوٹوں کو کسی صورت برداشت نہیں کرینگے‘ بلوچستان کی پسماندگی کے خاتمے کیلئے میگا منصوبے شروع کیے جارہے ہیں‘ بلوچستان کے عوام کے مسائل اُن کی دہلیز پر حل کرینگے۔ آج بھی بلوچستان مسائلستان بنا ہوا ہے ‘ ایک چھوٹی سی مثال ’’گوادر‘‘ جس کی ترقی کا شوشا زوروں پر ہے مگر زمینی حقائق اس قدر تلخ ہیں کہ حکمران ان پر توجہ دینے سے قاصر ہیں۔ گوادر کے باسی پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں اس سے بڑی جگ ہنسائی کی بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ گوادر میں اب گھروں سے پانی چوری کرنے کی خبریں رپورٹ ہورہی ہیں جو المیہ نہیں بلکہ ترقی کے دعوؤں کی بہترین عکاسی کررہا ہے۔ بلوچستان میں صرف سیندک پروجیکٹ کی مثال لی جائے کہ اب تک اس سے بلوچستان کو کیا فائدہ پہنچا؟بلکہ غالب امکان یہی ہے کہ سیندک پروجیکٹ سے متعلق حساب کتاب کا علم حکمرانوں کو بھی نہیں ہے ، بلوچستان کی اس عظیم ذخیرے کو مال مفت دل رحم کی مانندچین کے حوالے کردیا گیا،بوٹیاں وفاق پاکستان اور چین نے مل کر کھائیں اور جو دو فیصدی ہڈی بچی وہ بلوچستان کا منہ بند رکھنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ ریکوڈک منصوبے کو رئیسانی دور حکومت میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے کالعدم قرار دیا جس کے بعد ریکوڈک پر کام کرنے والی کمپنی نے عالمی عدالت انصاف میں کیس کیا جس کے حوالے سے اب تک مکمل معلومات نہیں کہ کیس میں کس حد تک پیشرفت ہوئی ہے اور کب تک اس کا فیصلہ آئے گا۔ بلوچستان اسمبلی فلور پر بھی خود اراکین اسمبلی حکمران واپوزیشن جماعتوں نے وسائل پر اختیارات کا رونا رویا مگر اس بے بسی کی وجہ کیا ہے؟ بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں اس کا ذمہ دار وفاق کو ٹھہراتی ہیں کہ بلوچستان کو ہمیشہ نظرانداز کیا گیا ہے اور یہاں کے وسائل کا فائدہ دیگر صوبوں کو پہنچا ہے مگر یہاں کے عوام کے حصہ میں مایوسی کے سوا کچھ نہیں آیا۔ آج بھی گوادر کے حوالے سے قوم پرست جماعتیں انہی خدشات کا اظہار کررہے ہیں کہ گوادر میں آبادکاری کی جائے گی اور یہاں کے عوام کو اقلیت میں تبدیل کیا جائے گا۔ ان تمام خدشات وتحفظات سے پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں بخوبی واقف ہیں مگر اب تک اس اہم مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیاجارہا جس کے باعث بلوچستان میں مختلف ادوار کے دوران شورش جنم لیتی رہی‘ سب سے بڑا مسئلہ وہ محرومیاں ہی ہیں جو بلوچستان کو آگ کی طرف دھکیل رہی ہیں اگر وفاق بلوچستان کا اُس کے وسائل پر حق حاکمیت کو تسلیم کرے تو بلوچستان کے بہت سارے مسائل کا حل ہونا یقینی ہے۔ صدافسوس کہ اس کے آثار آج بھی دیکھنے کو نہیں مل رہے ۔ آج عالمی دنیا میں مختلف محاذ کھلے ہوئے ہیں جس سے ہمارا خطہ بھی شدید متاثر ہورہا ہے جو آگے چل کر بہت بڑے مسائل کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔ حکمران طبقہ پرانی روش کو تبدیل کرتے ہوئے بلوچستان کے حوالے سے مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرے تو جو آ نے والا بحران ہے اس سے نمٹا جاسکتا ہے اگر نہیں تو یہی وہ محرومیاں ہیں جو بلوچستان کو آگ کی طرف دھکیل رہی ہیں۔ بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں کے ساتھ ان اہم معاملات پر سنجیدگی کے ساتھ بات چیت کی جائے تو مسائل کے حل کا راستہ نکلے گا کیونکہ اس خطے کو سب سے زیادہ خطرہ اب اُس جنگ سے ہے جس نے شام،ترکی اور یورپ کو متاثر کررکھا ہے۔ بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے اور اس کا حل بھی یہی ہے اب فیصلہ وفاق کو کرنا ہے کہ وہ بلوچستان کے سیاسی مسئلے کو کس طرح سے حل کرنا چاہتا ہے تاکہ ایک بہتر حکمت عملی کے ساتھ دونوں فریقین مل بیٹھ کر اس معاملے کو سلجھائیں بجائے اس کو الجھانے کہ جس سے بڑی تباہی کا اندیشہ ہوسکتا ہے کیونکہ طاقت کے استعمال سے دلوں میں نفرتیں جنم لیتی ہیں جو دوری کا سبب بنتے ہیں ۔ بلوچستان کے وسائل پر یہاں کے عوام کو حقوق دینے کے ساتھ حق حاکمیت مل جائے تو بلوچستان کا مسئلہ بہتر انداز میں حل ہوگا جس کی امید وتوقع آج بھی سب کو ہے۔