|

وقتِ اشاعت :   April 2 – 2016

بلوچستان میں غیرقانونی طور پر تارکین وطن کی بڑی تعداد موجود ہے‘ بلوچ قوم پرست جماعتوں کی جانب سے ان اعداد وشمار کو لاکھوں میں کہا جاتا ہے مگر اس پر صحیح معنوں میں تحقیقات نہیں کی گئیں ہیں۔ اس بات سے بلوچستان کے کسی ذی شعور شخص کو انکار نہیں کہ بلوچستان میں سب سے بڑی تعداد افغان مہاجرین کی ہے جنہوں نے افغانستان میں شورش کے بعد پاکستان کا رخ کیا خاص کر بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں ان کی بڑی تعداد نے رہائش اختیار کی‘ یواین ایچ سی آر کی جانب سے اعداد شمار اپنی جگہ مگر اس سے کئی گنا زیادہ افغان مہاجرین کی تعداد بلوچستان میں موجود ہیں اوران کی آمد کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ خیبرپختونخواہ میں ان کی وطن واپسی کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے جارہے ہیں جبکہ بلوچستان میں یہ عمل بہت ہی سست روی کا شکار ہے۔ پہلے فیصلہ کیا گیا کہ 2015ء دسمبر کے آخر میں افغان مہاجرین کی باعزت وطن واپسی کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات شروع کیے جائینگے مگر اس پر عملدرآمد نہیں ہوا‘ آج بھی افغان مہاجرین کی بڑی تعداد بلوچستان کا رخ کررہی ہے جس کے تدارک کیلئے ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے جارہے ۔ ہونا تو یہ چائیے تھاکہ آبادی کے دباؤ کو روکنے سمیت دہشت گردی جیسے واقعات کو روکا جائے، بلوچستان میں خود کش حملوں، بم دھماکوں سمیت دیگر دہشت گردی کے واقعات میں افغانی باشندوں کے ملوث ہونے کے شواہد بھی ملے ہیں جن کی باقاعدہ شناخت بھی ہوئی ہے۔ شام میں جاری شورش کے بعد یورپ نے شامی باشندوں کو پناہ دینے کیلئے اپنے دروازے کھولے مگر اس کے بعد یورپ کے مختلف ممالک میں خود کش حملوں سمیت دیگر جرائم بڑھ گئے جس کی وجہ سے یورپ کے مختلف ممالک نے دہشت گردی کو روکنے کیلئے اپنے بارڈر سیل کردئیے تاکہ پناہ گزینوں کی آڑ میں دہشت گرد یورپ میں داخل نہ ہوسکیں ۔ پاکستان میں مہاجرین پر کڑی نظر رکھنے کے ساتھ بارڈر پر سختی کرنے کے متعلق خاص پالیسی نظر نہیں آتی جس کی وجہ سے بلوچستان سمیت ملک کے دیگر صوبوں میں دہشت گردی کے واقعات رونما ہورہے ہیں۔ یہ بات انتہائی قابل غور ہے کہ دہشت گرد کن علاقوں سے داخل ہوکر ملک میں انتشار پھیلارہے ہیںیہاں اُن افغان مہاجرین کی بات نہیں کی جارہی جو یو این ایچ سی آر کے کیمپ میں موجود ہیں بلکہ وہ عناصر جو آج بھی کیمپ سے باہر رہائش اختیار کربیٹھے ہیں اور باقاعدہ شناختی کارڈ سمیت دیگر دستاویزات بھی بنا چکے ہیں جو نہ صرف یہاں کی معیشت پر اثرانداز ہورہے ہیں بلکہ سیاسی حوالے سے بھی ان کا کردار بڑھتاجارہا ہے۔ دوسری جانب اس کا فائدہ دہشت گردبھی اٹھارہے ہیں جو چند پیسے دیکر غیر قانونی طورپر رہائش اختیار کرنے والے افغان مہاجرین کو سہولت کار بناکر بڑے پیمانے پر کارروائیاں کررہے ہیں۔ وفاقی حکومت کو ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے وزارت اعلیٰ کے دور میں افغان مہاجرین کی فوری انخلاء کیلئے خط لکھا گیا جس کے بعد اس کا جواب صوبائی حکومت کیا ملا یہ منظر پر نہیں آیا۔ بلوچستان کے ایک دوسیاسی جماعتوں کے علاوہ دیگر تمام افغان مہاجرین کی فوری انخلاء کا مطالبہ کررہے ہیں اور اسی کو مد نظر رکھ کر انہوں نے افغان مہاجرین کی وطن واپسی تک مردم شماری کے عمل کی شدید مخالفت کی۔ بلوچستان میں سب سے پہلے جن مہاجرین نے قومی شناختی کارڈ سمیت دیگر دستاویزات بنائے ہیں ان کو بلاک کیا جائے اور اس میں ملوث عناصر کے خلاف شدید کارروائی کی جائے تاکہ یہاں کے حقیقی باشندے اپنے حقوق کو محفوظ تصور کریں نیز یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ بلوچستان کی سیاست سمیت یہاں کی معیشت پران افغان مہاجرین کو بوجھ نہ بننے دیا جائے کیونکہ پاکستان کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ وہ ان مہاجرین کا بوجھ برداشت کرسکے اور ان کی دیگر مشکوک سرگرمیاں جو انتہائی خطرناک ہیں جس سے حالات مزید گھمبیر ہونے کا خدشہ ہمیشہ دامن گیر رہتا ہے کیونکہ آج یورپ ہمارے سامنے ایک بہت بڑی مثال ہے جو مہاجرین کے متعلق انتہائی سخت قوانین بنانے کیلئے سرجوڑ کر بیٹھ گئے ہیں تاکہ سماجی ڈھانچے سمیت ان کی معیشت بھی متاثر نہ ہو۔ بلوچستان میں جعلی شناختی کارڈ کے اجراء کے خلاف سخت اقدامات کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومت وفاق کو اپنے خدشات و تحفظات سے آگاہ کرے تاکہ بلوچستان میں آنے والے وقت میں بڑے سانحات رونما نہ ہوسکیں۔