|

وقتِ اشاعت :   April 6 – 2016

موجودہ صوبائی حکومت نے پہلے سو دن مکمل کر لئے ۔ اس دوران بعض اہم فیصلے کیے گئے جن کے دوررس نتائج سامنے آئیں گے بعض فیصلوں کے اثرات کا جائزہ لینا باقی ہے کہ آئندہ پالیسی کے اثرات زیادہ خوش آئند ہوں گے ۔گوادر اس پورے خطے کی اہم ترین بندر گاہ ہے موجودہ حکومت نے یہ ذمہ داری قبول کر لی ہے کہ اس کو وہ تمام بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں گی جو گوادر کو ایک بندر گاہ کی حیثیت سے تیز رفتار ترقی دے سکے ۔ صوبائی حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ پہلے گوادر میں پینے کے پانی کا انتظام کیا جائے اس مقصد کے لئے مختصر اور طویل مدت کی منصوبہ بندی کی جائے ۔ مختصر مدت کی منصوبہ بندی میں گوادر میں کھارے پانی کو میٹھا بنانا ہے اس کے لیے دو پلانٹ ہیں ایک محکمہ صنعت نے تعمیر کیا تھا اور دوسرا بی ڈی اے نے۔ ان دونوں کو جلدسے جلد فعال کیا جائے اور یہاں سے گوادر کے عوام کو پانی فراہم کیاجائے چونکہ گوادر پورے خطے میں سب سے بڑی بندر گاہ ہوگی اس کو اسی مناسبت سے تمام شہری سہولیات فراہم کی جائیں ،ان میں ایک بین الاقوامی ائیر پورٹ، ایک بڑا بجلی گھر اور تجارتی نقل و حمل کے انتظامات جس میں ریلوے کا استعمال انتہائی ضروری ہے ۔و فاقی حکومت چین کے تعاون سے گوادر میں بین الاقوامی اےئرپورٹ اور تین سو میگا واٹ کی بجلی گھر تعمیر کررہی ہے ۔ اس طرح چین کے تعاون سے ایکسپریس وے بھی تعمیر کی جارہی ہے ۔ غالباً ان تینوں منصوبوں پر کام کا بہت جلد آغاز ہوگا اور اگلے تین سالوں میں یہ سب مکمل ہوجائیں گے دوسر ے الفاظ میں موجودہ حکومت کی مدت کے آخر میں یہ منصوبے مکمل ہوں گے۔ البتہ ریلوے کا منصوبہ ابہام کا شکار ہے ۔ صوبائی حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ وفاق پر اپنا دباؤ مستقل طورپر بر قرار رکھے تاکہ گوادر کی بندر گاہ ملک کے ریلوے کے نظام سے منسلک ہو۔بہتر یہ ہوگا کہ اس کو نوکنڈی سے ملایا جائے تاکہ ایران بھی اس کو استعمال کر سکے اور چاہ بہار کی بندر گاہ کو بھی اس ریلوے نظام سے منسلک کیاجائے ۔ یہ فاصلہ صرف چار سو کلو میٹر کا ہے اور یہ سارا میدانی اور ریگستانی علاقہ ہے جہاں پر ریلوے ٹریک آسانی کے ساتھ بچھایا جا سکے گا۔ اس کے لئے صوبے کا تعاون ضروری ہے ۔ ہمارا وزیراعلیٰ کو یہ مشورہ ہے کہ بلوچستان کے معاشی منصوبوں کے لیے وہ ایران کا تعاون حاصل کریں اور ایران کا دورہ کر کے حکومت ایران کو معاشی تعاون کے منصوبوں میں شریک کریں تاکہ ریلوے کے منصوبے پر اخرجاات کم ہوں۔ اگر ایران اپنے حصے کا خرچہ خود برداشت کر ے تو مزید آسانی ہوگی اس طرح گوادر : چاہ بہار اور پوری پاکستانی معیشت بین الاقوامی منڈی کا حصہ بن جائے گی ۔ پاکستان آسانی کے ساتھ ایران،ترکی اور دیگر یورپی ممالک کے ساتھ ریل کے ذریعے تجارت کر سکے گا۔ وزیراعلیٰ اس موقع کو استعمال کرکے ایران کا تفصیلی دورہ کریں اور دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی تعاون میں اضافہ کے لیے کوشش کریں ۔ گزشتہ دورہ گوادر میں گورنر ایرانی بلوچستان اور وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ گوادر کو چاہ بہار کے ساتھ ریل کے ذریعہ ملایا جائے گا ۔ لہذا اس معاملے مزید آگے بڑھایا جائے تاکہ گوادر اور چاہ بہار کو بین الاقوامی ریلوے نظام کے ساتھ منسلک کیاجائے اور اس کے تمام معاشی فوائد حاصل کیے جائیں ۔ وزیراعلیٰ کے ایران کے دورے کا بنیادی مقصد دونوں صوبوں کی معیشت کو ایک دوسرے کے ساتھ لنک کرنا ہو اور باہمی تعاون سے ایک مشترکہ حکمت عملی تیار کی جائے تاکہ معاشی ترقی کا فائدہ علاقے کے عوام کو ملے ۔ دونوں ملکوں کے درمیان آزادانہ تجارت اور آمد و رفت کو فروغ دیا جائے۔ وزیراعلیٰ ایران جانے سے پہلے تیاری کریں اور زاہدان ، خاران ، کراچی شاہراہ پر ایرانی حکام سے تعاون حاصل کریں کیونکہ اس شاہراہ کی تعمیر سے فاصلہ چار سو کلو میٹر کم ہوجائے گا۔ اور ایران تجارت کے لئے یہی راستہ استعمال کرے گا۔ جس میں وقت کی بچت ، توانائی کا کم استعمال شامل ہے ۔ موجودہ سو دنوں میں ایک اہم ترین منصوبہ کوئٹہ میں ٹرانزٹ ٹرین کا ہے ۔ یہ شٹل ٹرین سروس اسپیزنڈ سے لے کر کچلاک تک ہوگی جس سے لاکھوں افراد پورے دن میں سفر کریں گے۔ لوگوں کے وقت کی بچت ہوگی اور سستی ٹرانسپورٹ لوگوں کو ملے گی ۔ اس سے کوئٹہ شہر میں ٹریفک کادباؤ کم ہوگا اور شہر میں آلودگی بھی کم ہوگی ۔ اس کے علاوہ حکومت کے بہت سے منصوبے عوام کے مفا دمیں ہیں ۔ کوئٹہ اور اس کے اطراف میں پانی کے ذخائر تعمیر کیے جائیں تاکہ قلت آب کا خاتمہ ہو سکے اور زیر زمین کے بجائے ذخائر سے لوگوں کو پانی فراہم کیاجائے ۔