اس بارے میں کوئی دو رائے نہیں کہ جمہوری ادوار میں ہمیشہ قومی اداروں کو تباہ کیا جاتا ہے کیونکہ سیاسی‘ سفارشی اور راشی افراد کو میرٹ سے ہٹ کر اور ضرورت سے زیادہ تعداد میں بھرتی کرکے اداروں پر مالی بوجھ بڑھایا جاتا ہے جبکہ نااہل افرادکیخلاف قانون بھرتی ہونے سے اداروں کی کارکردگی بدترہوتی چلی جاتی ہے جس کے باعث آج ہمارے قومی ادارے پی آئی اے‘ اسٹیل ملز‘ پی ایس او اور ریلوے تباہی کے کنارے پہنچ چکے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں یہ تمام قومی ادارے سالانہ اربوں روپے منافع کمارہے تھے لیکن 2008ء کے بعد ان اداروں کی تباہی کا اس وقت آغاز ہوا جب پیپلزپارٹی نے حکومت سنبھالی اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ پی آئی اے کی نجکاری کیلئے حکومت نے مکمل تیاری کرلی ہے اسی طرح اسٹیل ملز کی نجکاری کیلئے بھی کوششیں جاری ہیں۔ پی ایس او جیسے میگاقومی ادارے کی حالت یہ ہوگئی ہے کہ گزشتہ دنوں ہی ایک بہت ہی چھوٹی آئل مارکیٹنگ کمپنی سے انہوں نے 10 ہزار ٹن پیٹرولیم مصنوعات قرض پر خریدنی پڑیں کیونکہ پی ایس او کے اربوں روپے سرکاری اداروں خصوصاً تھرمل پاور اسٹیشنز پر واجب الادا ہیں لیکن بروقت ادائیگی نہ ہونے کے باعث یہ قومی ادارہ مالی مشکلات کا شکار ہے۔ ایک بار پھر پیٹرولیم مصنوعات کی قلت کا بھی خدشہ پیدا ہوچکا ہے۔پی آئی اے کو جان بوجھ کر تباہ کیا جارہا ہے تاکہ اپنے من پسند افراد کو اونے پونے فروخت کیا جاسکے حالانکہ پی آئی اے کی بحالی کیلئے خلوص نیت سے کوششیں کی جائیں تو بلاشبہ یہ ادارہ ایک بار پھر دنیا میں اپنا نام پیدا کرسکتا ہے۔ پی آئی اے کے اضافی ملازمین کو گولڈن شیک ہینڈ اسکیم کے ذریعے باہمی رضامندی سے گھر بھیجا جاسکتا ہے جبکہ ادارے کی بحالی کیلئے ضروری ہے کہ حالیہ دور حکومت میں بھاری تنخواہوں پر بھرتی کئے گئے افراد کو بھی نکالا جائے اور بورڈ آف ڈائریکٹر میں ایوی ایشن صنعت سے تعلق رکھنے والے افراد ہی مقرر کئے جائیں۔
NLC اور FWO میں چند ناتجربہ کار افراد کی بھرتیوں اور ان اداروں کے کمرشل آپریشنز کے باعث یہ ادارے پاکستان کی مسلح افواج کیلئے بدنامی کا باعث بنتے چلے جارہے ہیں۔ NLC کو چاہئے کہ کمرشل بنیادوں پر صرف اتنے ہی کنٹریکٹ لے جتنا اس کا اپنا Fleet ہو اور اگر انکے پاس اپنی گاڑیاں دستیاب نہ ہوں تو انہیں کنٹریکٹ لینا ہی نہیں چاہئے اگر پھر بھی NLC اپنے کنٹریکٹرز کے ذریعے کمرشل بزنس کررہی ہے تو اپنے کنٹریکٹرز کو بروقت ادائیگیاں ہر صورت یقینی بنانی چاہئیں کیونکہ NLC نے اپنے کنٹریکٹرز کو گزشتہ 7۔8 سال سے ادائیگیوں کیلئے تنگ کر رکھا ہے اور NLC کے اسی رویئے کی وجہ سے پاکستان کی مسلح افواج کی ساکھ مجروح ہورہی ہے۔ NLC اپنے کنٹریکٹرز کو شاید اسی لئے 7۔8 سال سے کروڑوں روپے کی ادائیگیاں نہیں کررہی کہ واجب الادا کروڑوں روپے کی رقم اپنے اکاؤنٹ میں دکھاکر ادارے کا استحکام دکھانا مقصود ہو حالانکہ NLC نے 7۔8سال سے اپنے چند کنٹریکٹرز کے کروڑوں روپے روک رکھے ہیں۔ جنرل راحیل شریف کو چاہئے کہ NLC کو پابند کریں کہ اپنے کنٹریکٹرز کو تمام ادائیگیاں بروقت یقینی بنائے اور جن کنٹریکٹرز کے 7۔8 سال سے کروڑوں روپے کے واجبات رْکے ہوئے ہیں انہیں فوری طور پر اداہونے چاہئیں۔
FWO نے کراچی حیدرآباد موٹروے کا کنٹریکٹ لیا ہے لیکن اس ملٹری ادارے میں ایسے ناتجربہ افراد براجمان ہیں جو اس ادارے اور مسلح افواج کی ساکھ کو خراب کر رہے ہیں۔ کراچی سے حیدرآباد کیلئے سڑک ’’سپر ہائی وے‘‘ جنرل ایوب خان کے دور حکومت میں تعمیر ہوئی تھی۔اس سڑک کے دونوں اطراف گزشتہ 30۔35 سال سے ہزاروں افراد مختلف کاروبار کر رہے ہیں جن میں ریسٹورنٹ‘ پیٹرول پمپ‘ دکانیں اور سروس اسٹیشن قابل ذکر ہیں۔ 30۔35 سال سے قائم پیٹرول پمپوں نے تمام سرکاری اداروں کی رائج فیس اداکرکے اجازت نامے لیکر اپنا کاروبار شروع کیا اور مسلسل سرکاری اداروں کو ادائیگیاں کر رہے ہیں، سپر ہائی وے پر پیٹرول پمپوں کی منظوری نیشنل ہائی وے اتھارٹی کا کام ہے جس نے N.O.C. کیلئے رائج فیس وصول کرکے اجازت نامے جاری کئے تھے۔اب FWO نے تعمیراتی منصوبوں کے ٹھیکے لینے کے ساتھ ساتھ ایک نیا کام بھی شروع کردیا ہے، سپرہائی وے پر موجود پیٹرول پمپوں کو نوٹس بھیج کر پابند کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ وہ 60 لاکھ روپے فی پیٹرول پمپ ادائیگی کرے تاکہ کراچی حیدرآباد موٹروے کیلئے انہیں منظوری مل سکے۔
FWO کے اعلیٰ افسران اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو اس بارے میں سخت نوٹس لینا چاہئے اور بہتر تو یہی ہے کہ پیٹرول پمپوں کی تنصیب کی اجازت اور NOC کا اجراء نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے پاس ہی رہے اور 30۔35 سال سے قائم پیٹرول پمپوں کو زد نہ پہنچائی جائے اگر FWO کراچی حیدرآباد موٹروے کیلئے ریگولیٹری اتھارٹی کا کام اپنے ذمہ لے رہی ہے تو پھر صرف ان پیٹرول پمپوں سے فیس لینے کا ہی اختیار دیا جاسکتا ہے جو کراچی حیدرآباد موٹروے کی تعمیر کے بعد نئے قائم ہوں۔ میں اس سلسلے میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے اپیل کر تا ہوں کہ خدارا NLC اور FWO کے موجودہ طرز عمل کی درستگی کیلئے سخت نوٹس لیں اور NLC کو پابند کیا جائے کہ تمام کنٹریکٹرز کی 1 سال سے زائد عرصے سے واجب الادا تمام رقوم جاری کی جائیں اور FWO کو بھی کراچی حیدرآباد موٹروے کی تعمیر میں انصاف پر مبنی فیصلے کرنے چاہئیں، نیشنل ہائی وے اتھارٹی کی اجازت سے سالہا سال سے قائم پیٹرول پمپوں سے مزید ادائیگیوں کا مطالبہ ترک کردینا چاہئے کیونکہ FWO کے سول ملازمین اور چند مافیا ز مل کر کاروباری افراد کو تنگ کر رہے ہیں اور FWO کی جانب سے طلب کی گئی رقم سے بھی اضافی ادائیگیوں پر مجبور کیا جارہا ہے اور ہزاروں کاروباری افراد پریشان ہیں۔