کیا ہم ایسی سوسائٹی نہیں بن گئے جو اچھے کاموں کی مخالفت اور برے کاموں کی حمایت کرتی ہے؟ مَیں حیران ہوں کہ سندھ میں 17 سالہ شہناز کو شادی کی رات اس بنیاد پر قتل کرنے والے شوہر کی ابھی تک کسی دینی شخصیت نے مذمت نہیں کی کہ اس کی نوبیاہتا بیوی کنواری نہیں تھی۔ تحفظ خواتین بل پر آسمان سر پر اٹھا لینے والوں کو ایسے واقعات کیوں نظر نہیں آتے۔ مرد کو یہ کس نے اجازت دی ہے کہ وہ عورت کے بارے میں خود ایسے فیصلے کرتا رہے۔ تحفظِ خواتین بل کی وجہ سے گھر ٹوٹنے کا فتویٰ دینے والے اس بات کا جواب کب دیں گے کہ جب مرد گھر توڑنے کی بجائے اپنے جیون ساتھی کی گردن ہی توڑ دیتا ہے تو باقی کیا رہ جاتا ہے؟ کیا نعوذ باللہ ہم نے اسلام کو ایک ایسا دین نہیں بنا دیا جو مظلوم کو تحفظ نہیں دیتا۔ مرد کے ظلم کو سہتے سہتے عورت چاہے قبر میں چلی جائے کسی طرف سے اس کے حق میں آواز نہیں اْٹھتی، مگر جب یہ کہا جائے کہ قانون ظالم شوہروں کے خلاف حرکت میں آئے گا تو جلسے جلوس نکلنا شروع ہو جائیں، یہ تو کھلا تضاد ہے اور اسی تضاد کی وجہ سے معاشرہ انارکی کی طرف جا رہا ہے۔
یہ کوئی ایک پہلو نہیں جس پر ہم گنگا اْلٹی بہتے دیکھ رہے ہیں ایسے بے شمار پہلو ہیں جنہیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ہم تضادات میں گھرے ہوئے ہیں ،ابھی چند روز پہلے سپریم کورٹ نے ایک ہزار روپے کی ڈکیتی میں ملوث ملزم کی سال بعد ضمانت پر رہائی کا حکم دیا ہے۔ ساتھ ہی یہ ریمارکس بھی دیئے ہیں کہ یہاں اربوں روپے لوٹنے والے دندناتے پھرتے ہیں اور چند ہزار کی ڈکیتی میں ملوث غریبوں کی ضمانت تک نہیں ہوتی۔ اس قسم کے تضادات کو ہمارے ہاں اس لئے جائز سمجھ لیا گیا ہے کہ ہم نے قانون کو بھی مختلف خانوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ امیروں کے لئے قانون بے ضرر ہے اور غریبوں کے لئے انتہائی ضرر رساں۔ ہم نے جرم کی نوعیت کو دیکھنے کی بجائے جرم کرنے والے کو سامنے رکھا ہوا ہے۔ ایان علی کے پاس پانچ کروڑ بھی نکل آئیں تو اس کا کچھ نہیں بگڑتا ،لیکن کسی غریب کلرک کی دراز سے ہزار روپے کا نوٹ بھی نکل آئے تو وہ قانون کے شکنجے میں آ جاتا ہے اور ایسا آتا ہے کہ سال ہا سال تک اس کی جان نہیں چھوٹتی۔ تمیز بندہ و آقا کے جال میں پھنسے ہوئے اس معاشرے میں اگر کسی نوبیاہتا 17سالہ لڑکی کو شوہر موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے تو اسلام کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوتا، البتہ اگر تشدد کرنے والے شوہر کو کڑا پہنانے کی بات کی جاتی ہے تو اسلام کو شدید خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔ مَیں مذہبی رہنماؤں کو چیلنج نہیں کر رہا، البتہ ایک عام فہم آدمی کی حیثیت سے یہ پوچھنے کا حق تو رکھتا ہوں کہ اسلا م نے لڑکیوں کو زندہ گاڑنے سے کیوں منع کیا تھا؟ کیوں اس بدو معاشرے کی یہ سب سے بڑی خرابی گنوائی تھی کہ وہاں بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔ ہمارے ہاں اگر پیدا ہوتے ہی دفن نہیں کی جاتیں تو انہیں بعد میں کبھی زندہ جلا دیا ہے اور کبھی انہیں گردن کاٹ کر موت کی نیند سلا دیتے ہیں۔ مَیں حیران ہوں کہ اس ظلم کے خلاف یا اس پہلو پر علمائے دین زبان کیوں نہیں کھولتے، اس کے خلاف سڑکوں پر کیوں نہیں آتے؟ اس سوال کا جواب تو ماہر عمرانیات ہی دے سکتے ہیں کہ پاکستانی معاشرے میں تضادات کی بنیاد کب اور کیوں رکھی گئی، تاہم جہاں تک مَیں سمجھ سکا ہوں ، ہمارے ہاں یہ کھچڑی اس لئے پکی ہے کہ ہم نے اسلام کو بھی بیچا ہے اور سیاست کو بھی۔ جس ملک میں آمروں نے اسلام کا نام لے کر دس دس سال حکومتیں کی ہوں اور اسلام کے نفاذ کی طرف ایک گام کی پیش رفت نہ کی ہو، وہاں ایسے تضادات کاپیدا ہونا اچنبھے کی بات نہیں۔ اچنبھے کی بات تب ہوتی جب نفاذِ اسلام کے بعد پاکستان کو ایک رفاحی ریاست بنا دیا گیا ہوتا اور یہاں اسلام کا نظامِ عدل بھی پوری طرح نافذ ہوتا۔ جہاں آمروں نے سارا زور حدود آرڈیننس جیسے قوانین بنانے پر صرف کیا ہو، وہاں انصاف نہیں ملتا، بلکہ قانون کے نام پر مزید زیادتیوں کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ اسلام ایک فلاحی دین ہے، اس کے اس پہلو پر کبھی توجہ دی گئی نہ زور دیا گیا، بس اس کے ان پہلوؤں کو اس کی روح سے ہٹ کر اس طرح نافذ کیا گیا کہ وہ کسی خاص طبقے کی مطلب براری کا ذریعہ بن جائیں۔
کون نہیں جانتا کہ اسلام کرپشن، ملاوٹ، ظلم، خیانت، بددیانتی، قومی خزانے کی لوٹ مار، ذخیرہ اندوزی اور ناانصافی کے خلاف کیا پیغام دیتا ہے۔ خود حضور اکرمؐ کے اس بارے میں ارشادات کیا ہیں؟ مگر اس کے باوجود ہمارے دینی حلقے کبھی ان باتوں پر سینہ تان کر سڑکوں پرنہیں آتے۔ اسے ریاست کی ذمہ داری قرار دے دیتے ہیں، لیکن جب یہی ریاست معاشرے کے ایک مظلوم طبقے، یعنی عورتوں کے لئے میدان میں آتی ہے تو اس کے خلاف احتجاج شروع کر دیتے ہیں۔ یہ بھی تو ریاست کی ذمہ داری ہے، پھر اسے ادا کیوں نہیں کرنے دیا جاتا۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ہم منتخب قسم کا اسلام چاہتے ہیں اور منتخب قسم کا قانون مانگتے ہیں۔۔۔ ایک بڑے اور مکمل دین کو کس قدر محدودیت کے ساتھ استعمال کرتے ہیں، حالانکہ اس کے اثرات پوری حیات پر محیط ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے ہر مسئلے کا حل اسلامی نظام میں چھپا ہوا ہے، مگر ہم نے اسلام کو اس قدر خانوں میں تقسیم کر دیا ہے کہ اب ہر کوئی یہ پوچھتا ہے کہ آپ کس مسلک کے اسلام کی بات کررہے ہیں؟ مَیں سمجھتا ہوں یہ بھی پاکستان کے خلاف ایک سازش ہوئی ہے کہ اسے مذہبی بنیادوں پر تقسیم کر دیا گیا ہے۔ سوال تو یہ ہے کہ جب حکومت تحفظِ نسواں جیسے بل پیش کرتی ہے تو ہر مسلک کے لوگ اکٹھے ہو جاتے ہیں، لیکن جب حقیقی معنوں میں شریعت کے نفاذ کی بات کی جائے تو سب اپنے اپنے تحفظات لے کر سامنے آ جاتے ہیں۔ کیا ہم نے پاکستانی معاشرے میں اسلام کے فلاحی پہلوؤں کو شجر ممنوعہ قرار دے رکھا ہے۔ بظاہر تو ایسا ہی لگتا ہے۔
ایک دانشور دوست نے بڑی پتے کی بات کی، انہوں نے کہا کہ جب کسی قوم کے امراء ، علماء اور دانشوروں کے قول و فعل میں تضاد پیداہو جاتا ہے تو اس معاشرے کی بنیادیں کھوکھلی ہو جاتی ہیں۔ معاشرے کی اصل بنیاد سچائی ہے، سچائی معاشرے سے رخصت ہو جائے تو وہ دھڑام سے زمین پر آ رہتا ہے۔ سچائی اس وقت معاشرے سے رخصت ہوتی ہے، جب امراء کے قول و فعل میں تضاد پیدا ہو جائے۔ آج اس ملک میں کوئی ایک سیاسی رہنما یا عالم دین بھی مشکل سے ہی ملے گا، جس کی باتوں کا لوگ دل سے اعتبار کرتے ہوں۔ سب تضادات میں ڈوبے ہوئے ہیں اور ان کی ہر بات کو لوگ اسی انداز سے دیکھتے ہیں، گفتار اور کردار کے درمیان جب بْعد مشرقین آ جائے تو معاشرے میں ہر شخص کا دوسرے سے اعتبار اْٹھ جاتا ہے۔ غریب اور متوسط طبقے تو رہے ایک طرف، امراء اور اشرافیہ کے طبقات بھی ایک دوسرے کا اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ جھوٹ کی اس قدر فراوانی ہے کہ سچ کی تلاش کار عبث بن گیا ہے۔ کبھی کبھی تو اس صورتِ حال کی وجہ سے میرے اندر خوف کی ایک لہر دوڑ جاتی ہے کہ جن طبقات کو قوم کی رہبری کا فریضہ ادا کرنا چاہئے، وہ خود بھٹک گئے ہیں۔ الطاف حسین حالی نے بہت پہلے یہ راز بتا دیا تھا کہ قومیں زوال کا شکار کیسے ہوتی ہیں ؟۔۔۔ انہوں نے کہا تھا۔
کسی قوم کا جب اْلٹتا ہے دفتر
تو ہوتے ہیں مسخ اس میں پہلے تونگر
مَیں یہ جملہ لکھنا نہیں چاہتا کہ اس صورتِ حال سے ہمیں کوئی معجزہ ہی نکال سکتا ہے، البتہ اتنا ضرور کہوں گا کہ ہم میں سے ہر ایک نے اپنی ذمہ داریوں کو تج کر اصلاحِ احوال کے لئے کسی معجزے سے امید ضرور باندھ رکھی ہے۔