|

وقتِ اشاعت :   April 6 – 2016

میرے دوست جب بھی مجھ سے ملتے ہیں تو انکے زبان پر یہ جملہ ضرور آجاتا ہے کوئی دیکھے یا نہ دیکھے شبیر تو دیکھے گا تو میں انکو عرض کرتا ہوں کہ شبیر نے دیکھنا چھوڑ دیا ہے تو ان کے ہونٹوں پر ہلکی سے مسکراہٹ جھلک اٹھتی ہے۔ سفر تو بہت کم کرنا پڑتا ہے لیکن جب سفر ہوتی ہے تو وہ ایک روداد بن جاتی ہے پھر وہ روداد سنانی بھی پڑتی ہے۔ یہ روداد ہے کنڈ ملیر کی۔ ہم یعنی میں ڈاکٹر خیرجان، رحمت اللہ ، شاہ زیب اور سجاد جسے میں پیار سے سجل کہہ کر پکارتا ہوں کنڈ ملیر کے لئے رخت سفر ہوئے۔ ہمارا سفر حب چوکی سے شروع ہوا۔ بس اچانک کنڈ ملیر کی یاد آگئی سب نے ہاں میں ہاں ملائی اور سفر پر روانہ ہوئے روانہ ہونے سے قبل ہم نے ضروریات سامان بھی اپنے ساتھ ہی لے لئے ۔ یہ شام کا وقت تھا شام کے وقت عموماً اس علاقے کی آب و ہوا میں تبدیلی آ ہی جاتی ہے۔ حبس زدہ ماحول شام کو خوشگوار ہو جاتی ہے۔ تب جان میں جان آجاتی ہے۔ پھر اگر یہی سفر اور موسم ہم خیال دوستوں کے ساتھ ہو تو سفر کا مزہ دوبالا ہو جاتا ہے۔ بلوچستانی زمین پہاڑوں کے گھیرے میں رہتی ہے جبکہ لسبیلہ اسکے برعکس ہے یہاں میدانی ہی میدانی علاقہ ساتھ میں ساحل سمندر بھی۔یوں لگتا ہے جیسے قدرت کا خزانہ اور خوبصورتی اس علاقے میں ہی پنہان ہو۔ کیکر کے جنگلات کا تو کوئی حساب نہیں بس خدا کی نعمتوں کاشکر ادا کئے بنا نہیں رہ سکتا۔ پھر امن کے لحاظ سے یہ علاقہ اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ حب سے چند کلومیٹر آگے گڈانی آتی ہے۔ لوگ سیرسپاٹے کے لئے یہاں کا رخ کرتے ہیں۔ گڈانی کا سمندر حب چوکی کے موسم پر کافی خوشگوار اثرڈالتا ہے۔ اس سے آگے چل کر سونمیانی کا ساحل بھی کافی دید رکھتا ہے اور مؤرخین بتاتے ہیں کہ ایک زمانہ یہ علاقہ پورٹ ہوا کرتا تھا کاروبار کا اہم ذریعہ ہوا کرتا تھا اور جہاز یہیں پر لنگر انداز ہوا کرتے تھے، لیکن بعد میں یہ پورٹ کراچی منتقل کیا گیا۔جو کہ اب یہ علاقہ مکمل طور پر سیکورٹی زون کہلاتا ہے اور یہاں عام افراد کے لئے داخلے کے دروازے بند ہیں۔ اسی علاقے سے ملحق ناکہ کھارڈی چیک پوسٹ بھی آتا ہے۔ جہاں kund malir4گاڑیوں کی چیکنگ کی جاتی ہے کہ کہیں اس میں اسمگلنگ کا سامان تو موجود نہیں۔ باقی خدا جانے۔ چند کلومیٹر کا سفر طے کرکے وندر شہر آتا ہے۔ وندر کے بعد پھر میدانی علاقہ شروع ہوجاتی ہے۔ تب جاکر اوتھل سے چند کلومیٹر پہلے اوتھل زیرو پوائنٹ آجاتا ہے۔ یہیں سے گوادر کے لئے بنائی گئی مکران کوسٹل ہائی وے شروع ہو جاتی ہے۔ گوادر کا زیرو پوائنٹ 24گھنٹے مسافر بسوں، گاڑیوں اور ٹریفک کی آمد و رفت اور مسافروں کی ٹھہراؤ کو مسکن ہوا کرتا ہے۔ اوتھل سے شروع ہونے والا یہ علاقہ تا حد نظر ہنگول نیشنل پارک کے حدود میں آتا ہے ہنگول نیشنل پارک تین اضلاع کو آپس میں جوڑ کررکھتی ہے یہ علاقہ قدرتی حسن کے ساتھ ساتھ اہم مقامات اور جنگلی حیات کا مسکن بھی ہے۔ ساحل سمندر اسکے حسن میں بے پناہ اضافہ کرتا ہے۔ ہم اپنا سفر طے کرتے کرتے رات یہیں پہنچ گئے تھے۔ ہوٹل پر کافی گہما گہمی تھی۔ ہم نے بھی چائے کا چسکا لیا اور دوبارہ سفر کے لئے روانہ ہوئے۔ رات کا سفر، موسم خوشگوار دوستوں کا ساتھ ہم کافی محظوظ ہو رہے تھے پھر سڑک پر گاڑیوں کی آمد و رفت اسے مزید حسن بخش رہی تھی۔ مجھے اپنا بچپن یاد آیا جب ہم آواران سے کراچی سفر پر نکلتے تھے تو وہ راستہ بھی اسی طرح پررونق ہوا کرتا تھا لیکن اب اس راستے کی رونقیں مکران کوسٹل ہائی وے نے چھین لی تھیں۔ راستے میں نہ کسی کا ڈر اور نہ کسی کا خوف۔نہ کوئی چور ڈاکو نظر آئے ہاں البتہ راستے میں ایک کسٹم کا چیک پوسٹ نظر آیا جو گاڑیوں کی چیکنگ اور مسافروں کی پوچھ گچھ کے لئے بنائی گئی تھی۔ چند کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتے ہوئے ہمیں ایک ہوٹل کے سامنے چند کوچ نظر آئے کوچ ڈرائیورز سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ تیل بردار کوچز ہیں جو مختلف علاقوں کو تیل کی سپلائی کرتے ہیں لیکن کسٹم کے ڈر سے کئی روز سے آگے جا نہیں پا رہے ہیں۔ مجھے خیال آیا کہ بلوچوں کے پاس آمدنی کا محدود ذریعہ یہی ٹرانسپورٹیشن ہے اگر یہی ان سے چھین لیا جاتا ہے تو بھلا ان کے کے لئے زندگی کو گزارنے کے لئے اور کونسے ذرائع موجود ہیں جنکو بروئے کار لاتے ہوئے یہ اپنا گزر بسر کریں گے۔ اوتھل سے کنڈملیر کا سفر 148کلومیٹر پر محیط ہے اور کراچی کا سفر 234کلومیٹر پڑتا ہے۔ کنڈملیر ابھی چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہی تھا میں نے کہا کہ کنڈملیر کا بیچ کافی چراغاں ہوگا ۔ تو شاہ زیب نے ہنس کر کہا ایسے لگتا ہے جیسے آپ یورپ کے کسی بیچ پر جا رہے ہوں۔ یقیناًمیرے لئے بلوچستان کے یہ خوبصورت مقامات یورپ سے کہیں زیادہ پیارے ہیں تو میں کیوں نہ ایسا تصور زہن میں لاؤں۔ ہم ٹھیک رات 10:30بجے کنڈملیر پہنچنے میں کامیاب ہوئے یہ سفر کیسے گزری ہمیں پتہ ہی نہیں چلا۔ ہم نے سامان گاڑی سے نکال کر ساحل سمندر کا راستہ لیا۔ ساحل سمندر پر بنائے گئے جونپڑے چاند کی روشنی سے نمایاں نظر آرہے تھے پر ہمیں مصنوعی روشنی کہیں نظر نہ آئی۔ چاندنی کی روشنی نے ساحل سمندر کے منظر کو دلکش بنا لیا تھا۔ ہم نے سوچا کہ جونپڑیوں کا کوئی پاسبان نظر آئے گا جسکی اجازت سے ہم کسی جھونپڑے پر قابض ہو جائیں گے لیکن ہمیں صرف کتے ہی حفاظت پر معمور نظر آئے وہ بھی نہایت ہی شریف۔ دور تک انکے بھونکنے کی آوازیں آر ہی تھیں پر وہ ہمارے نزدیک آنے سے کترا رہے تھے۔ بس ایک خوبصورت منظرہمارا منتظر تھا۔ ہم ساحل سمندر کی صاف ستھری اور چلتی ہوئی ہوا سے کافی لطف اندوز ہو رہے تھے۔ ہم نے اپنے ڈیرے ڈال دیئے تھے۔ رحمت اللہ نے جو بکرا اپنی بچی کے لئے خریدا تھا اسے زبح کرکے ہم یہاں لائے تھے اسکا گوشت سجی کی سیخوں میں ٹنگا ہوا تھا ساتھ میں دیگ پک رہی تھے اور ہم دوست ایک دوسرے کے ساتھ ہنسی مذاق میں مصروف۔ ایسا پر لطف اور حسین منظر وہ بھی خاموش رات کو۔ سمندر کی لہروں کی آواز۔ لوگ بھی جوق درجوق سمندر کے کنارے آباد ہو رہے تھے۔ لیکن تعداد کم۔ ہر پندرہ منٹ بعد ہم سجاد سے ایک ہی سوال کرتے تھے ’’ ارے سجل! سجی تیار ہوگئی‘‘ پھر اپنے آپ ہنستے ۔ سجاد تو کافی سرگرم عمل تھا اور زیادہ تر کام اسی سے لیا جاتا تھا کیونکہ وہ تھا عمر میں چھوٹا۔ اسلئے پیار میں چھوٹے سے زیادہ کام لیا جاتا ہے اور ہم یہ بخوبی نبھارہے تھے۔ اسی دوران ہم ساحل سمندر کے کنارے چکر لگاتے اور پھر واپس اپنے آشیانے کے پاس جمع ہو جاتے جہاں ایک تو اوپر چاندنی ، زمین پر آگ کی روشنی اور آگ سے نکلتے ہوئے شعلے ایک عجیب سا سماں پیش کر رہے ہوں گے۔میں دل ہی دل میں سوچ رہا تھا۔لوگ آر ہے تھے لیکن کسی نے بھی جھونپڑیوں کا رخ نہیں کیا تو کیا ایک ہی ہم ہیں جنہوں نے جھونپڑی کا سہارا لیا ہوا تھا۔ ٹھیک رات 3:00بجے ہمارا کھاناتیار ہو چکا تھا۔ شاہ زیب کھانے کے دوران باتوں باتوں میں اپنی بنائی ہوئی کٹرائی کا ذکر چھیڑ رہا تھا تو میں جان بوجھ کر سجاد کی بنائی ہوئی سجی کی تعریف کرکے اسے چڑا رہا تھا۔ ہم سب میں موجود خیرجان ہمارے محفل کی جان تھا۔پیشے سے ڈاکٹر لیکن یاروں کا یار۔ رات کی سیاہی چھٹ چکی تھیڈھائی گھنٹے کی نیند تھکاوٹ کو ختم کرنے کے لئے کافی نہیں تھی لیکن ہمیں صبح کا حقیقی رنگ اور سمندر کی موجوں کو قریب سے دیکھنے کے لئے اٹھنا ہی پڑا۔ ہم ساحل سمندر کے کنارے اپنی موجودگی سے کافی لطف اٹھا رہے تھے۔ لوگ اب خیموں کی طرف آر ہے تھے اور سمندر کا کنارہ کافی رش کش تھا کہیں پر ساؤنڈ بج رہا تھا تو کہیں لوگ کھیل کود میں مصروف تھے۔ ہم نے سمندر کے پانی میں ڈبکی لگانے کا ارادہ کر رکھا تھا سو ہم نے ڈبکی بھی لگائی اور سمندر کے پانی کو انتہائی شفاف پایا جو عموماً دیگر ساحل سمندر پر پانی کے ساتھ تیل کی ملاوٹ کی صورت میں صاف پایا نہیں جاتا۔ اسی اثناء ہمیں ایک مقامی ماہی گیر ملا جو صبح سویرے مچھلی کی شکار کے لئے نکلا تھا لیکن اسے شکار نہیں ملا تھا اور وہ واپسی کا رخ کر چکے تھے۔ ساتھ ہی مقامی شخص سومار ملا جسکا ذریعہ روزگار ان جھونپڑیوں سے وابستہ تھی جنکی تعداد لگ بھگ 7تھی۔ سومار کہتے ہیں ’’ یہ علاقہ پہلے ساحل سمندر نہیں ہوا کرتا تھا یہاں انکے باپ دادا کھیتی باڑی کیا کرتے تھے باقاعدہ کھیتی ہوا کرتے تھے وقت کے ساتھ ساتھ سمندر کا حجم بڑھتا چلا گیا یہ مقام اب ساحل سمندر کہلاتا ہے اور یہ ساحل سمندر ہماری ملکیت ہے‘‘میرا دوسرا سوال ان سے یہ تھا کہ حکومت کی جانب سے اس علاقے کی خوبصورتی کے لئے اقدامات کیوں اٹھائے نہیں جاتے۔ تو انکی جانب سے وہی سادہ جملہ آگیا ’’ یہ علاقہ کافی دور ہے اسلئے اس پر توجہ نہیں دی جاتی‘‘۔ حکومت نے اپنی ذمہ داری سے صرف چار کچہرہ دان kund malir2لگانے اور ایک سائن بورڑ جس پر ’’ خبردار ساحل اور ماحول کو صاف ستھرا رکھنے میں اپنا کردار ادا کریں کچہرہ پھینکنے کی صورت میں وائلڈ لائف ایکٹ 2014کے تحت کراوئی عمل میں لائی جا ئیگی۔بحکم پارک انتظامیہ۔‘‘ کے الفاظ درج تھے کی حد تک محسوس کئے گئے ہیں۔ کچرے جگہ جگہ بکھرے ہوئے تھے سمندر کے بہاؤ کے ساتھ ساتھ یہ لہروں کی نظر ہو کر سمندر کا حصہ بنتے جا رہے تھے نہ ہی ہمیں کوئی عملہ نظر آیا اور نہ ہی اسکی روک تھام کے لئے عملی اقدامات۔ اس ایریا کی آبادی اونچی پہاڑی پر منتقل ہو چکی تھی۔ ہمیں یہاں نہ کوئی بڑا اسکول نظر آیا اور نہ ہی ہسپتال۔ صرف ایک چیز نمایاں نظر آئی وہ تھی ’’غربت‘‘۔ رات کی پرسکون خاموشی دم توڑ چکی تھی۔ سورج سوا نیزے پر آگیا تھا۔ ہم نے واپسی کا راستہ لینا ہی تھا۔ روڑ کے کنارے سائن بورڑ پر لکھے گئے حروف گوادر 400، اورماڑہ 100کلومیٹر پر نظر پڑی لیکن ہم نے واپس حب کا رخ کرنا تھا۔ راستے میں ہم نے ہندؤں کے مقدس مقام نانی مندر کا رخ بھی کیا۔ جہاں ہندو برادری عبادات میں مصروف عمل تھے۔ ہم نہ چا ہتے ہوئے کنڈملیر کو اجازت کر چکے تھے سورج کی روشنی میں ہماری واپسی کا سفر اتنا پرلطف نہیں تھا جو ہم نے گزشتہ شب لیا تھا۔