بھارتی جاسوس کی گرفتاری کے بعد ایران مخالف لابی نے پورے پاکستان میں ایک طوفان برپا کردیا اور میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے جمہوریہ اسلامی کے خلاف زبردست پروپیگنڈہ مہم شروع کردی گئی تھی اور ایران کیخلاف سنگین الزامات لگائے گئے جس سے معلوم ہوتا تھا کہ ایران بھارت کا بغل بچہ ہے اور اس کے اشارے پر ناچتا ہے اور نئی دہلی کے احکامات بجا لاتا ہے دوسرے الفاظ میں ایران بھارتی جاسوس کو ایرانی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت سرکاری طور پر دے رہا ہے ایران نے ان تمام اعتراضات اور نکتہ چینی کو یکسر مسترد کردیا یہ تمام کام ایک مخصوص لابی نے کئے ہیں جو پاکستان اور ایران کے درمیان برادرانہ، دوستانہ اور اچھی ہمسائیگی کے تعلقات کو پسند نہیں کرتا اور چاہتا ہے کہ پاکستان ایران کیخلاف بین الاقوامی محاذ میں شامل ہو جائے جس کی سربراہی سعودی عرب کررہا ہے یہ طبقہ ہمارے سماج میں کتنا مضبوط ہے اور کتنی قوت رکھتا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ تعلقات کو خراب کرنے کی اہلیت رکھتا ہے اس طبقے کا تھوڑا بہت اثر حکومت اور حکومتی اداروں پر ضرور ہوگا مگر ہم کو نہیں معلوم کہ وہ کتنا طاقتور ہے اور حکومت کو احکامات جاری کرسکتا ہے کہ نہیں، بہرحال یہ حکومت کا ایک اہم حصہ نہیں ہے افسوس کی بات ہے کہ یہ معاملہ اس وقت کھڑا کیا گیا جب ایران کے صدر خیر سگالی کے دورے پر آئے ہوئے تھے اور وہ پاکستان کے ساتھ سفارتی، سیاسی، سماجی اور تجارتی تعلقات کو زیادہ مضبوط بنانا چاہتے تھے ایران صدر کی آرمی چیف سے بھی ایک ملاقات ہوئی تھی جس پر سرکاری طور پر ایک بیان جاری کیا گیا جس کی ایرانی حکومت نے سختی سے تردید کی جو ہمارے لئے سبکی کا باعث بنی ایران ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے کسی کے ماتحت نہیں ہے اس نے اپنے طور پر یہ معاشی اور سیاسی فیصلہ کیا کہ بھارت کو وسط ایشیاء کے ممالک کے ساتھ تجارت کرنے کیلئے چاہ بہار کی بندر گاہ کی سہولیات فراہم کرنے کی پیش کش کی جو بھارت نے نہ صرف اس کو قبول کیا بلکہ اس منصوبہ اور اس سے منسلک منصوبوں پر سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا جس کا ایران نے نہ صرف خیر مقدم کیا بلکہ بھارت کو تمام تر سہولیات فراہم کرنے کا عندیہ دیا یہ مسئلہ اس وقت کھڑا ہوا جب پاکستان نے بھارت کو تجارتی راہداری کا حق دینے سے انکار کیا تاوقتیکہ کشمیر اور دوسرے تنازعات بھارت سے حل نہیں ہوتے گوادر کی بندرگاہ سے مایوس ہونے کے بعد بھارت نے چاہ بہار کا رخ کیا جہاں اس کو خوش آمدید کہا گیا اب بھارت ایران میں اربوں ڈالروں کی سرمایہ کاری کررہا ہے چاہ بہادر بندر گاہ کا بنیادی ڈھانچہ سینکڑوں میل طویل ریلوے لائن تاکہ چاہ بہار کو زاہدان کے ساتھ ملایا جائے یا بین الاقوامی ریل نیٹ ورک کے ساتھ ملایا جائے کھاد کی ایک بہت بڑی فیکٹری چاہ بہار میں قائم کررہا ہے تاکہ اس کی ساری پیداوار پنجاب میں استعمال کرے اور زرعی پیداوار میں اضافہ کرے چاہ بہار کی بندر گاہ پر دو برتھ صرف اور صرف بھارتی جہازوں کے لئے مخصوص کردیئے گئے ہیں چاہ بہار گوادر سے صرف 72کلو میٹر کے فاصلے پر ہے ان تمام باتوں میں بعض پاکستانی حضرات کو یہ شبہ ہوتا ہے کہ سکیورٹی کے معاملات میں بھی دونوں ممالک تعاون کررہے ہیں اور ممکن ہے کہ بھارتی ایجنٹ کو تمام سہولیات فراہم کی گئی ہوں مگر ایران نے ان سب الزامات کو غلط قرار دیا اور ان تمام اقدامات کی نشاندہی کی جو گزشتہ 70سالوں میں پاکستان کے دفاع اور اسکی سلامتی کیلئے ایران نے کئے تھے بعض مذہبی شدت پسند صرف اور صرف مسلک کی بنیاد پر ایران کیخلاف ہیں اور بعض دوسرے عناصر سعودی عرب کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے ہیں اور پاکستان کو سعودی کیمپ میں دھکیل دینا چاہتے ہیں مگر وقت پر وفاقی وزیر داخلہ اس مسئلے میں کود پڑے ایرانی سفیر سے ملاقات کے بعد انہوں نے نقصانات کو کم سے کم کرنے کی کوششیں کیں تاکہ ایران کے ساتھ ہمارے تعلقات نہ صرف خوشگوار بلکہ قریبی رہیں اور دونوں ملکوں کے درمیان تجارت اور تعاون میں اضافہ ہو۔
ایران کیخلاف معاندانہ رویہ
وقتِ اشاعت : April 8 – 2016