بھارت میں پاکستان کے ہائی کمشنر عبدالباسط نے اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ بھارت کے ساتھ امن کا عمل معطل ہوچکا ہے ۔ پاکستان اور بھارت کے سیکرٹری خارجہ کے درمیان ملاقات یا جامع مذاکرات کی ابھی تک کوئی تاریخ طے نہیں ہوئی ہے اس سے قبل بھارت نے سیکرٹری خارجہ کے دورہ پاکستان کو ملتوی کردیا تھا اور پٹھان کوٹ کے واقعہ کو بہانہ بنایا تھا موجودہ صورت حال میں بھارت سے تفتیشی ٹیم کو پاکستان آنے کی اجازت ملنا مشکل نظر آتی ہے پاکستانی تفتیش کا روں نے بھارت کا دورہ کیا تھا مگر ان کے ساتھ بھارتی اہلکاروں نے تعاون نہیں کیا اور پاکستانی تفتیش کار وطن واپس لوٹ آئے تفتیش میں تعاون کا مقصد دہشت گردی کو جڑ سے ختم کرنے کی کوشش کی تھی جو بھارت نے اس کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔ پاکستانی وفد بھارت سے خالی ہاتھ لوٹ آیا اس طرح پاکستان نے مولانا مسعود اظہر تک بھارت کو رسائی دینے سے انکار کردیا ہے ۔ اس تفتیش کے دوران بھارتی جاسوس ایران ، پاکستان سرحد کے قریب پکڑا گیا اس نے ایرانی پاسپورٹ بنایا ہوا تھا اور اکثر اس کی پاکستان میں آمد و رفت رہتی تھی جس کے دوران وہ گرفتار ہوااور اس نے اقبالی بیان بھی دیا کہ وہ پاکستان میں جاسوسی کرتا تھا اور اس کے دہشت گردوں اور علیحدگی پسندوں سے رابطے تھے ۔ معاملہ یہیں ختم نہیں ہوا بلکہ افغانستان کا ایک جاسوس چمن کے قریب پکڑا گیا اس کے پاس سے گولہ بارود، اسلحہ اور بم بنانے کے آلات بھی برآمد ہوئے بعض سرکاری اہلکاروں کا خیال ہے کہ افغانستان اور بھارت دونوں پاکستان کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث نظر آتے ہیں اور ان کے مقاصد ایک ہیں۔ ادھر پاکستانی وزراء اور سرکاری اہلکاروں نے افغانستان کی مذمت کی ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف الزام تراشی میں مصروف ہے جس سے دونوں ملکوں کے تعلقات پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں ۔افغان پروپیگنڈے کے خلاف پاکستان نے احتجاج کیا ہے اور افغانستان پر جوابی الزامات لگائے ہیں واضح رہے پاکستانی طالبان کے سربراہ ابھی تک افغانستان میں ہیں وہ اور ان کے گروپس آئے دن پاکستانی سرزمین اور پاکستانی سیکورٹی افواج پر حملے کرتے رہتے ہیں جن سے جانی اور مالی نقصانات ہوئے ہیں۔ افغانستان کی طرف سے یہ بہانہ بنایا جارہا ہے کہ طالبان دہشت گرد ان افغان علاقوں میں ہیں جہاں پر کابل حکومت کی رٹ نہیں ہے سرکاری طورپر اس اعلان کے بعد حکومت پاکستان کا یہ حق بن جاتا ہے کہ وہ خود ان علاقوں میں کارروائیاں کرے اور دہشت گردوں کے تمام ٹھکانوں کو تباہ کرے مگر پاکستان نے آج تک یہ حق استعمال نہیں کیا اور نہ ہی مستقبل قریب میں اس حق کو استعمال کرنے کا ارادہ ہے ۔ افغانستان میں امریکی اور ناٹو افواج موجود ہیں انہیں چائیے کہ وہ یہ کارروائیاں کریں اور طالبان دہشت گردوں کے ان تمام ٹھکانوں کو تباہ کر یں جو افغانستان کے دوردراز علاقوں میں قائم ہیں مگر اہم ترین مسئلہ بھارت کے ساتھ امن عمل متا ثرہونے کا ہے ۔ بھارت اور بھارتی میڈیا پاکستان کے خلاف مہم بند کر دیں اور امن کے عمل کو بحال کریں تاکہ دونوں ممالک کے درمیان جامع مذاکرات جلد سے جلد شروع ہوں اور خطے میں دیر پا امن قائم ہو ۔ یہ بات بھارت پر منحصر ہے کہ وہ کب جامع مذاکرات دوبارہ شروع کرے گا تاکہ تصفیہ طلب مسئلے جلد سے جلد حل ہوں اور پورے خطے میں خوشحالی کا دور دورہ آئے۔ ابھی تک دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں اور اس کشیدگی میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ امریکی حکومت نے یہاں تک دعویٰ کیا ہے کہ جوہری ہتھیار محاذ جنگ کے فرنٹ لائن پر نصب کردئیے گئے ہیں مگر ہمارے حکومتی ذرائع اس امریکی دعوے کی تصدیق یا تردید نہیں کی ہے متعلقہ حکام نے اس پر خاموشی اختیار کی ہوئی ہے ۔خصوصاً بھارت کی جانب سے کچھ بھی نہیں کہا جارہا ہے اس کے مسلح افواج نے جنگ کے فرنٹ لائن پر جوہری اسلحہ نصب کیے ہیں یا نہیں؟ خطے میں امن کے عمل کے معطل ہونے کے بعد کشیدگی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے جو ایک علاقائی امن کے لئے نیک شگون نہیں ہے بین الاقوامی برادری اپنا کردار ادا کرے اور بھارت پر دباؤ ڈالے کہ وہ پاکستان کے ساتھ نہ صرف امن مذاکرات شروع کرے بلکہ کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کیلئے بھی کوئی طریقہ کار اختیار کیا جائے ۔