|

وقتِ اشاعت :   April 9 – 2016

ریاست پاکستان میں اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرنے والوں کو ہمیشہ سے ہی لاٹھی چارج، آنسو گیس شیلنگ اور فائرنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عوام اپنے حقوق کے لئے سب سے پہلے میڈیا کا سہارا لیتے ہیں۔ جب یہی خبر حاکم وقت کے نظر سے گزرتی ہے تو وہ اس نظریں چرا لیتی ہیں۔ جب بات نہیں بنتی تو متاثرین اپنے حقوق کے لئے باآواز بلند سڑکوں پر احتجاج پر اتر آتے ہیں۔ تب بھی بات نہ بنے تو وہ عوامی نمائندوں کا رخ کرتے ہیں۔ وہی عوامی نمائندے جو ووٹ لینے کے لئے عوام کی قدموں میں جھکنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ان تک پہنچتے پہنچتے انہی عوام کو لاتوں، گھونسوں، لاٹھی چارج اور آنسو گیس شیلنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جس میں کئی لوگ زندگی ہار بیٹھتے ہیں تو کچھ کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہنا پڑتا ہے۔ پھر تحقیقاتی کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں۔ تحقیقاتی کمیٹیاں سالہا سال گزر جانے کے باوجود اپنی حتمی رپورٹ پیش نہیں کرپاتیں۔ پھر معاملہ رفع دفع ہو جاتا ہے۔ پھر نئے تنازعے۔ پھر نئے مسائل۔ نہ رہا پرانا مسئلہ اور نہ ہی نئے مسئلے کی حل کے لئے کوئی امید باقی۔ 7اپریل کوجہاں پوری دنیا عالمی یوم صحت منا رہی تھی تو وہیں ینگ ڈاکٹرز ایسو سی ایشن اپنے حقوق کے لئے احتجاج کرنے سڑکوں پر نکل آئی تھی۔ جنکے مطالبات تھے کہ ڈاکٹرز کو وہ سہولیات دی جائیں جو انکا حق ہے۔ پانچ نکاتی مطالبات میں پہلا یہ کہ بلوچستان کے تمام ہسپتالوں میں مریضوں کو بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں۔ جب ایکسرے و الٹراساؤنڈ مشین اور دیگر مشینری نہیں ہوگی تو اس وقت تک ڈاکٹر کسی مرض کی تشخیص کیسے کر سکیں گے۔ غلط ٹریٹمنٹ کی صورت میں مریض کے مرجانے کے چانسز بھی پیدا ہو جائیں گے۔ دوئم یہ کہ ایڈہاک اور کنٹریکٹ کی بنیاد پر بھرتی کو مسترد کرتے ہیں۔ حکومت انہیں کیا گارنٹی دے سکتی ہے کہ اس بنیاد پر کی جانے والی بھرتی آئندہ مستقل ہوگی کہ نہیں۔ اگر ہو بھی تو اس کی ضمانت کون دے سکتا ہے کہ بلوچستان کے مقامی ڈاکٹرز کو ترجیح دی جائیگی۔ سوئم یہ کہ کوئٹہ کے ٹیچنگ ہسپتالوں میں تعینات پوسٹ گریجویٹ اور ہاؤس آفیسرڈاکٹروں کو جو 9ماہ کی اسکالرشپ نہیں ملی ہے اسکی فوری ادائیگی عمل میں لائی جائے۔ چہارم یہ کہ بلوچستان کے ڈاکٹرز کو خیبرپختونخواہ کے ڈاکٹرز کی طرح پرونشل ہیلتھ الاؤنس دیئے جائیں۔ پنجم یہ کہ کوئٹہ کی سطح پر ہاؤس آفیسران کو رہائش کی سہولت فراہم کی جائیں۔ اور سول ہسپتال میں قائم ڈاکٹروں کے لئے بنائی گئی چالیس کمروں پر مشتمل رہائشی فلیٹس کو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے چنگل سے چھڑا کر ڈاکٹروں کو الاٹ کیے جائیں جو انکا حق ہے۔ انہی مطالبات کو لیکر ایک ہفتہ پہلے ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن نے پریس کلب کوئٹہ میں پریس کانفرنس بھی کی تھی۔ یہ تمام مطالبات جائز اور حق پر مبنی تھے۔ اگر ڈاکٹروں کو سہولیات فراہم نہیں کی جاتیں اور انہیں انکی ماہوار تنخواہ اور اسکالرشپ سے محروم رکھا جاتا ہے تو وہ مریضوں کی خدمت کیسے کریں گے۔ انہی مطالبات کو لیکر ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن احتجاج پر اتر آئی تھی ۔ جیسے ہی مظاہرین اپنے مطالبات لیکر صوبائی اسمبلی کی جانب مڑے تو پولیس کی جانب سے نہتے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے فائرنگ، آنسو گیس کی شیلنگ اور لاٹھی چارج کا حربہ استعمال کیا گیا جس سے نہ صرف کئی ڈاکٹرز زخمی ہوئے بلکہ ان میں سے ایک زخمی ڈاکٹر اسد کو تشویشناک حالت میں خصوصی طیارے کے ذریعے آغا خان ہسپتال کراچی منتقل کیا گیا۔کئی زخمی ڈاکٹرز کوئٹہ کے مقامی ہسپتال تو کئی لاک اپ میں بند کر دیئے گئے۔ینگ ڈاکٹرز ایسو سی ایشن بلوچستان کے نائب صدر ڈاکٹر حیات ساسولی کا کہنا تھا ’’ ہمارا پرامن مظاہرہ تھا، ہم اپنے مطالبات عوامی نمائندوں تک پہنچانے کے لئے اسمبلی جانا چاہتے تھے لیکن پریس کلب کے پاس ہی ہمیں روک لیا گیا۔ اور یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ حکومتی نمائندے ہمارے مطالبات سننے خود ہمارے پاس یہاں آئیں گے وہ 4بجے تک انتظار کرتے رہے لیکن کوئی عوامی نمائندہ نہیں آیا۔ جسکے بعد ہم نے اسمبلی کا رخ کیا تو راستے میں ہمیں روکنے کی کوشش کی گئی اور پولیس ہم پرحملہ آور ہوگئی۔ اور جسکا نتیجہ آج سب کے سامنے ہے‘‘ انکا مزید کہنا تھا کہ وہ تین مہینے سے اپنے مسائل کے حل کے لئے ہیلتھ اور فنانس ڈیپارٹمنٹ سے میٹنگ کرتے رہے لیکن اسکا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ واقعے کے بعد ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر حفیظ مندوخیل نے پریس کانفرنس میں کہا کہ جب تک تشدد کرنے والے ایس ایچ او اور عملے کو رخصت نہیں کیا جاتا اور انکے مطالبات تسلیم نہیں کئے جاتے وہ اس وقت تک احتجاجاً تھڑے پر بیٹھ کر مریضوں کا علاج کریں گے اور او پی ڈی کا بائیکاٹ کریں گے۔دوسری جانب وزیر اعلیٰ بلوچستان نے صوبائی وزیر داخلہ اور وزیر صحت کی سربراہی میں پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دے کر واقعے کی تحقیقات اور اسکی رپورٹ 48گھنٹے کے اندر اندر انہیں پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔ یہاں پر سوال یہ اٹھتا ہے کہ اپنے حقوق کے لئے عوام سڑکوں پر کیوں نکل آتے ہیں؟ وہ اسلئے کہ حکومت عوام کو وہ سہولیات انکی دہلیز تک پہنچانے میں ناکام ہوتی ہے جو انکا حق بنتا ہے۔ تو عوام احتجاج کا راستہ اپنا تے ہیں۔ پاکستان میں اپنے حقوق کے لئے احتجاج کرنا،پھر ان احتجاجیوں پر لاٹھی چارج کرنا نئی بات نہیں۔ اگر ڈاکٹرز تین مہینے سے اپنے مطالبات متعلقہ اداروں کے سامنے رکھ چکے تھے تو انکے جائز مطالبات کو پورا کرنے میں اتنی دیر کیوں لگائی گئی کہ انہیں سڑکوں پر آنا پڑا۔ پھر وہ ڈاکٹرز جنکے ہاتھ ہتھیار اور لاٹھی سے خالی تھے ان پر بہیمانہ تشدد جبرکی بد ترین علامت بن کر سامنے آئی۔ اگر ڈاکٹرز کے مسائل کو حل کیا جاتا تو یقیناًآج کا یہ شرم ناک واقعہ دیکھنے کو نہیں ملتا۔ یقیناًحکومت کو ان اسباب کی نشاندہی کرکے متعلقہ اداروں کے سربراہان کو کٹہرے میں لانے کی ضرورت ہے جنہوں نے اس مسئلے کو طول دیکر مسیحاؤں کو سڑکوں پر لانے پر مجبور کیا۔ بلوچستان کی ناگفتہ بہ صورتحال جہاں اول تو ڈاکٹرز کو وہ سہولیات نہیں دی جاتیں جہاں وہ جاکر مریضوں کا علاج کرسکیں اور دوسری یہ کہ انکی سیکورٹی کے لئے بھی کوئی انتظامات موجود نہیں ہیں۔ اگر کوئی ڈاکٹر اپنے فرائض کی انجام دہی میں مصروف عمل ہے تو وہ ایک مخلصانہ کوشش کہی جاتی ہے۔ دسمبر2015کو تحصیل جھاؤ کے ایک محسن ڈاکٹر شفیع بزنجو کو اس وقت شہید کیا گیا تھا جب وہ اپنے فرائض کی انجام دہی کے بعد گھر واپس لوٹ رہا تھا۔ مگر حکومت تاحال اسکے قاتلوں کی گرفتاری عمل میں نہ لا سکی جسکے بعد ڈاکٹروں میں ایک تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی۔ عجیب اتفاق ہے کہ چند مہینے ہی گزرے ہیں اور اب کی بار ڈاکٹرز حکومتی عملے کے زیرِ عتاب آگئے۔عالمی یوم صحت کے دن پر عالمی دنیا نے یہ ضرور دیکھ لیا ہوگا کہ پاکستان بالخصوص بلوچستان میں ڈاکٹروں پر فائرنگ، لاٹھی چارج اور آنسو گیس برسا کر یہ دن منایا جاتا ہے۔ اور یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ مہذب معاشرے میں مسیحاؤں کے ساتھ یہی سلوک کیا جاتا ہے۔