|

وقتِ اشاعت :   April 9 – 2016

گجراتی بولنے والے پاکستانی سرمایہ داری کو دہائیوں یہ شکایت رہی کہ وہ ملک کی معیشت چلا رہے ہیں اربوں کے ٹیکس ادا کررہے ہیں بلکہ پورا ملک چلا رہے ہیں مگر ان کا حکومت اور حکومتی فیصلوں پر کوئی دسترس نہیں ہے۔ ان کا حکومت پر کوئی اثر ورسوخ نہیں ہے ۔ 1980ء کی دہائی تک یہ بات درست تھی کہ افسر شاہی اور اس کے کارندے جو سیاست میں تھے ملک پر حکمرانی کرتے رہے بڑے سے بڑا سرمایہ دار ان کی معمولی رعایا رہی ۔ ڈپٹی کمشنر کے دفتر کے باہر ہم نے بہت بڑے اور ارب پتی سرمایہ دار کو بیٹھے دیکھا ان کا نمبر آنے پر ان کو 18گریڈ کے ڈپٹی کمشنر نے بلایا اس سے پہلے نہیں ۔ اس کو کوئی وی آئی پی کا درجہ نہیں دیا گیا بلوچستان ایک مختلف معاشرہ تھا اور آج بھی ہے ۔ یہاں پر ڈپٹی کمشنر سماج کا حصہ ہوتا تھا اور ذاتی مسائل بیان کر سکتا تھا ۔ جب یہ فیصلہ ہوا کہ حب ٹاؤن کو انڈسٹریل کا ایریا کا درجہ دیا گیا اور یہاں صنعتیں قائم کرنے کی اجازت دی گئی تو کراچی کے بڑے بڑے کارخانہ داروں نے اوتھل کا رخ کیا اور ڈپٹی کمشنر سے ملاقات کی اور ان سے این او سی حاصل کی ۔ ہر کارخانے دار کو ڈپٹی کمشنر نے خود دروازے پر پر تپاک انداز میں استقبال اور چائے پلائی اس دوران این او سی ان کے ہاتھ میں دے دی گئی ۔ اس طرز عمل پر کراچی اور ملک کے دیگر علاقوں کے کارخانے دار پریشان ہوگئے کہ ملک ایک اوراس میں قدریں مختلف ۔ آج کل بلوچستان کا افسر اسی طرح کام کرتا ہے ۔ جیسا کہ پنجاب اور سندھ میں ، ان میں کوئی فرق نہیں رہا اب سرمایہ دار طاقتور ہوگیا ہے ۔ وجہ اس کی سیاسی قوت ہے ۔ملک کا وزیراعظم تاجر ہے ۔ صنعت کار ہے اور اس کی خصوصی عنایتیں صرف تاجروں اور صنعت کاروں کے لئے ہیں ۔ عوام الناس کے لئے نہیں ، ایک مرتبہ ایک مقامی ٹیکس آفسر نے حب ٹاؤن میں ایک فیکٹری کا دورہ کیا اور مالکان سے گزارش ہے کہ وہ پراپرٹی ٹیکس صوبائی حکومت کو ادا کریں اس پر انہوں نے وزیراعظم پاکستان نواز شریف کو فون کیا اور شکایت کی بلوچستان کا ایک معمولی ٹیکس افسر ان کو ہراساں کررہا ہے ۔ وزیراعظم نے فوری طورپر بلوچستان کے چیف سیکرٹری کو بات بتائی ۔ چیف سیکرٹری نے فوری طورپر اپنے ایک با اعتماد افسر جو لسبیلہ کا اسسٹنٹ کمشنر تھا روانہ کیا ۔ راقم کی موجودگی میں اس معمولی افسر کی جو درگت بنائی وہ آج ہمیں یاد ہے ۔ گناہ یہ تھا کہ انہوں نے پراپرٹی ٹیکس کی ادائیگی کا مطالبہ کیا آج پوری کی پوری کابینہ تاجروں کی حکومت میں موجود ہیں ۔ بشمول وزیراعظم پاکستان تاجروں کو لوٹ مار کی اجازت ہے ۔ ہر بار ان کیلئے اربوں روپے کے پیکج آتے ہیں بلکہ یہ مافیا کے طورپر کام کررہے ہیں ۔ آج کل سیاست بھی ان کی گھر کی لونڈی بنا دی گئی ہے ۔ دولت تاجروں اور صنعت کاروں کے پاس ہیں ۔ صرف وہی کروڑوں روپے خرچ کرکے پارلیمان اور اسمبلی کی نشست جیت سکتے ہیں ۔ نشست ملنے کے بعد یہ یقینی ہوجاتا ہے کہ ایم این اے یا ایم پی اے ارب پتی ضرور بن جائے گا بلکہ مسلم لیگ کا ٹکٹ ملنے کا یہ مطلب لیا جاتا ہے کہ ان کو ارب پتی بننے کا لائسنس مل گیا ہے ۔ پوری کی پوری ریاست پاکستان اور پوری حکومت آج کل تاجروں کے تابع ہے تاجروں کی حکمرانی مکمل طورپر ہے ۔ تاجر جب حکمران بن جاتا ہے تو اس کو ساری توجہ ریاستی امور پر نہیں ہوتی بلکہ صرف اور صرف اپنے تجارتی مفادات کو دیکھتا ہے بلکہ دیگر تاجر اور صنعت کار حضرات کے جائز اورناجائز مفادات کی بھی نگرانی کرتا ہے ۔ وزیراعظم جب سری لنکا کے دورے پر گئے تھے وہاں پر سری لنکا کے صدر کو یہ پیش کش کی کہ وہ سری لنکا میں شوگر مل قائم کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ بات ملک کے سب سے بڑے انگریزی روزنامہ میں چھپ گئی کہ وزیراعظم بیرونی ممالک کے دوروں میں بھی اپنے تجارتی مفادات کی نگرانی زیادہ دلچسپی اور شدت کے ساتھ کرتے ہیں ۔ اب سیاست پر تاجروں اور صنعت کاروں کا قبضہ ہے جب تک یہ طبقہ سیاست اور حکمرانی سے بے دخل نہیں ہوگا ملک کے معاشی اور سماجی حالات میں تبدیلی نہیں آسکتی ۔ تاجروں کا اقتدار میں آنے کا واحد مقصد یہ ہے کہ وہ ریاستی اختیارات کا غلط استعمال کرکے اپنی تجارت اور صنعتوں کو فروغ دیں ۔ بعض مرکزی وزراء یہ کہتے سنے گئے کہ ان کو تجارت کرنے کا حق حاصل ہے ۔ اگر وہ تجارت کرنا چاہتے ہیں تو وہ سیاست کو خیر باد کہہ دیں تو کوئی ان کا نام نہیں لے گا۔ اگر وہ تجارتی مقاصد کے لئے سرکاری اختیارات کا غلط استعمال کریں گے تو شور ضرور ہوگا۔ بہر حال اللہ ہم پاکستانیوں پررحم کرے کیونکہ تاجر اور صنعت کار ہمارے حکمران ہیں اور سیاستدانوں سے بے دخل کردئیے گئے ۔ اللہ ہم کو ہر بلا سے محفوظ رکھے خصوصاً جب تاجر ملک کے حکمران ہوں ۔