|

وقتِ اشاعت :   April 10 – 2016

قومی اسمبلی میں اکثر اپوزیشن اراکین اسمبلی نے حکومت سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ پانا لیکس میں درج افراد کے خلاف سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی نگرانی میں تحقیقات کرائی جائے معلوم نہیں حکومت اس مطالبے کو کیوں تسلیم نہیں کرتی حالانکہ یہ بالکل جائز مطالبہ ہے اور عوام الناس بھی اس مطالبے کے حق میں ہیں ۔ یہ چیف جسٹس کی مرضی ہوگی کہ وہ کن جج حضرات کو اس کمیشن میں رکن نامزد کریں گے ۔ ہمیشہ بڑے بڑے معاملات میں یہی کچھ ہوتا آرہا ہے اور اب حکومت بضد معلوم ہوتی ہے کہ وہ ضرور ایک ریٹائرڈ جج نامزد کریں گے جس کی تلاش جاری ہے ۔ ریٹائرڈ جج کی حیثیت ایک عام شہری کی ہوگی مگر چیف جسٹس سپریم کورٹ اور اعلیٰ ترین عدالت کے سربراہ ہیں جس کرسی پر وہ بیٹھے ہیں اس کا حق ضرور ادا کرنے کی کوشش کریں گے اعلیٰ ترین عدلیہ کے وقار اور اس کی عزت کا خیال رکھتے ہوئے انصاف پر مبنی فیصلہ دیں گے۔ تحقیقات کریں گے جس سے لوگ مطمئن ہو سکتے ہیں ریٹائرڈ جج پر یہ تمام ذمہ داری عائد نہیں ہوتی صرف وہ اپنے ضمیر کے سامنے جوابدہ ہوتا ہے ۔ عوام الناس اور ان کے احساسات سے ان کا جذباتی تعلق نہیں ہوتا کیونکہ وہ اعلیٰ ترین عدالت کا رکن نہیں ہے۔ وہ حکومتی دباؤ میں آ کر کوئی غلط فیصلہ کر سکتے ہیں مگر چیف جسٹس سے یہ توقع قطعاً نہیں ہے کہ وہ انصاف کے اعلیٰ ترین اصولوں کو پامال کریں گے اور حکومت کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے حکومت اور حکمرانوں کے توقعات کے مطابق فیصلہ کریں گے ۔اس لئے اپوزیشن کا یہ مطالبہ جائز ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں اس بات کی تحقیقات ہونی چائیے کہ اتنی بڑی دولت ملک سے باہر کیسے گئی، کون کون لوگ اس جرم میں ملوث تھے اور ہیں ؟ یہ منی لانڈرنگ کا سب سے بڑا مقدمہ ہے ۔ عوام کو یہ حق حاصل ہے کہ اس کو معلوم ہو کہ اتنی دولت کس طرح ملک سے باہر چلی گئی کون کون لوگ اس میں ملوث ہیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ حکومت اور حکمران آئے دن بیرونی سرمایہ کاری پر زور دیتے ہیں تاکہ ملک زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ ترقی کرے اور دوسری جانب اس کے بچے منی لانڈرنگ میں ملوث ہیں اور اتنی بڑی سرمایہ کاری ملک سے باہر کررہے ہیں اس کا تو قانونی اور اخلاقی جواز نہیں ہے بلکہ وزیراعظم پر اتنے بڑے الزام کے بعد ان کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دینا چائیے ۔ ان کا وزیراعظم رہنا غیر اخلاقی ہے اور غیر قانونی ہے کیونکہ ان کے خاندان کے لوگ ملک سے باہر سرمایہ لے گئے ہیں اور انہوں نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ پاکستان سرمایہ کاری کے لیے محفوظ ملک نہیں ہے ورنہ دوسری صورت میں وہ کیونکر اپنا سرمایہ باہر رکھتے یعنی اس پر تومحاورہ صادق آتا ہے کہ دوسراکو نصیحت خود میاں فضیحت ۔