میرے سامنے اس وقت سوشل میڈیا پر دو تصاویر گردش کرتی نظر آرہی ہیں پہلی تصویر بارکھان کے جیل میں بند ایک اسکول ٹیچر ’’مہربان‘‘ کی ہے جسے اس جرم کی پاداش میں سلاخوں کے پیچھے بند کیا گیا ہے کہ مجرم اسکے رشتہ دار ہیں۔ بارکھان کے مقامی صحافی ظفر کھیتران کا کہنا ہے کہ’’ مہربان‘‘ گورنمنٹ ہائی اسکول عیشان بارکھان میں بطور جے وی ٹیچر تعینات ہے۔ گزشتہ روز اسکے رشتہ داروں کا مدعی کے ساتھ جھگڑا ہوا تھا تو انہوں نے ’’مہربان‘‘ کا نام بھی اس ایف آئی آر میں ڈال دیا۔ لیویز کو جب کوئی ہاتھ نہیں آیا تو اس نے مہربان کی شرافت سے فائدہ اٹھا کر اسے لاک اپ میں بند کر دیا۔
عجیب سلسلے ہیں ابھی حالیہ دنوں میں پولیس حکام کی جانب سے ڈاکٹروں پر لاٹھی چارج اورپھر’’ مہربان‘‘ کی لاک اپ میں لی گئی تصویر۔ اب ایک استاد کا یہ حشر ہمیں دیکھنا پڑا کل وہ اپنے شاگرددوں کو کیا کہے گا کہ اسے کس جرم میں پابند سلاسل کیا گیا۔ کئی دن سے ایک ملزم کی طرح لیویز تھانے میں بند’’ مہربان‘‘ کے حوالے سے اسکے طلباء کیا سوچتے ہوں گے کہ انکے استاد کو کس جرم کی سزا دی جا رہی ہے اور انہیں علم سے محروم رکھا جا رہا ہے۔۔ ۔ کیسا زمانہ آگیا کہ کرے کوئی تو بھرے کوئی۔ یقیناًآج استاد مہربان کے ساتھ یہی ہو رہا ہوگا۔ کیا یہی ٹیچر کل جب اسکول جائے گا تو وہ بچوں کو شرافت کا سبق پڑھائے گا؟؟کیا وہ انہیں یہی بتائے گا کہ ٹیچر کا مقام بہت اعلیٰ ہے۔ معاشرہ اس پوزیشن کی کس قدر عزت کرتی ہے یہ کہ معاشرے میں انصاف کا کتنا بول بالا ہے کہ جس طرح’’ مہربان‘‘ پر یہ معاشرتی ادارہ مہربان ہو گیا ،اسے حوالات میں بند کر دیا گیا۔پھر کونسا قانون یہ کہتا ہے کہ جس کے رشتہ دار مجرم ہوں تو اسکی پاداش میں شریف انسان کا نام ایف آئی آر میں درج کیا جائے پھر اسے لاک اپ میں لاکر بند کیا جائے وہی استاد جسکی عزت کے لئے جج بھی احتراماً کھڑے ہو جاتے ہیں ایک قیدی کی مانند بند دہائی دے رہا ہے۔ہمارا معاشرہ اب ہر قسم کے احساسات سے عاری ہو چکا ہے۔ معاشرے کو سنوارنے والا انسان لاک اپ میں بند ہے اور پورا معاشرہ خواب خرگوش ہے۔ شاید استاد اب معاشرے کا مہذب جز نہیں رہا جو کبھی ہوا کرتا تھا۔ جس استاد کے قدموں کی آہٹ سن کر اسکے شاگرد چھپنے کی کوشش کرتے تھے یا کہ اسکے سامنے سر جھکائے آداب بجا لاتے اب ایسا کچھ نہیں رہا۔
میرے سامنے جو دوسری تصویر سوشل میڈیا کے ذریعے گردش کر رہی ہے وہ ہے ایک خط کا عکس ۔ جس میں ایک نوجوان اپنے دوست کی خیریت دریافت کرنے کے لئے اسے خضدار سے آواران کے لئے ارسال کر رہا ہے اس خط کا متن کچھ یو ں ہے
’’ محترم و معزز دوست محمد ‘‘
مورخہ: 10/04/2016
بعد سلام عرض ہے کہ ہم لوگ یہاں خیر و خیریت سے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ آپ لوگ خیریت سے ہوں گے۔تمام فیملی سے خیر کی امید رکھتے ہیں۔اپنی خیریت سے آگاہ کرنے کے لئے خط ارسال کرنا۔
والسلام
آپکا ۔۔صدام حسین گزگی خضدار
نوجوان نے خط لکھ کر یقیناًپچھلی صدی کی یاد کو تازہ کیا ہوگا۔ آواران بلوچستان کا پسماندہ ترین ضلع ہے جہاں سے کبھی بھی اچھی خبریں نہیں آتیں۔ لیکن گزشتہ ایک ہفتے سے خبروں نے آنا ہی بند کر دیا ہے اب آپ پوچھیں گے کہ بھئی بھلا خبریں اچھی ہوں یا بری انہیں لوگوں تک تو پہنچنا چاہئے۔ لیکن ایسا ہو نہیں پا رہا۔مواصلاتی رابطہ منقطع ہونے کی وجہ سے آواران گزشتہ ایک ہفتے سے پوری دنیا سے کٹا ہوا ہے۔ نہ ہی وہاں کے لوگ پوری دنیا سے رابطہ کر سکتے ہیں اور نہ ہی باقی شہروں اور ملک سے باہر لوگ اپنے پیاروں کی خیریت دریافت کرنے کے لئے کوئی ذریعہ ڈھونڈ سکتے ہیں پھر نہ جانے اس نوجوان کو خط کا سلسلہ کیسے یاد آیا کہ اس نے خط میں اپنی کی خیریت بتانے کا ذریعہ ڈھونڈ نکالا۔باقی خدا جانے کہ آواران پر کونسی آفت ٹوٹ پڑی کہ وہاں سے مواصلاتی رابطہ ہو نہیں پا رہا۔
آواران میں رابطے کا واحد ذریعہ فائبر آپٹک سے چلنے والا نظام ہے اس نظام سے تحصیل جھاؤ، آواران اور گیشکور میں PTCLکی سروس مہیا کی جاتی ہے جبکہ اسکے علاوہ آواران شہر میں یوفون کی اور مشکے میں زونگ کا محدود سروس موجود ہے۔ یوں سمجھئے یہ ضلع پوری دنیا سے کٹ کر رہ گئی ہے جسکی پسماندگی کی اچھے الفاظ میں مثال دی جا سکتی ہے۔
ؓبلوچستان کے کونے کونے سے ایسی خبریں روزانہ میڈیا کی حد تک تو نہیں البتہ سوشل میڈیا کا حصہ ضرور بن جاتی ہیں۔ اب اگر اس بات کا ذکر اسلام آباد یا پاکستان کے دیگر بڑے شہروں میں کیا جائے اول تو یہ کہ وہ اس بات کو ماننے کو تیار ہی نہیں ہوتے کہ جدید دور میں بھی بلوچستان کا ایک ضلع اسطرح کی صورتحال کا سامنا کرتا ہے۔ دوئم یہ کہ جھوٹاقرار دیا جاؤنگا۔
نظروں سے گزرتے تصاویر روزانہ سوالات کے انبار چھوڑ دیتے ہیں اپنے آپکو جھنجوڑنے کی کوشش کرتے ہیں جواب پانے کی کوشش کرتے ہیں جواب ملتے نہیں۔ سوچتا ہوں کہ استاد ’’مہربان‘‘ اور آواران کا قصہ ایک ہی ہے ۔۔
دو تصاویر اور بے شمار سوالات
وقتِ اشاعت : April 12 – 2016