بلوچستان کے چیف سیکرٹری سیف اللہ چٹھہ نے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ کوئٹہ کو ملک کا ایک مثالی شہر بنایا جائے گا۔ شہر کا ہر باشندہ اس میں کردار اد اکرے تاکہ شہر صاف ستھرا رہے ۔ بیماریوں اور آلودگی سے پاک رہے ۔ کوئٹہ ایک صحت افزا مقام تھااور اب دوبارہ اسکے وقار کو بحال کیا جائے تاکہ یہ ملک کا سب سے کم خرچ صحت افزا مقام رہے ۔ چیف سیکرٹری نے اتوار کے دن شہر کے بعض علاقوں کا دورہ کیا اور صفائی مہم کا معائنہ کیا جس کے دوران انہوں نے اپنے اس خواہش کا اظہار کیا کہ کوئٹہ کو ماڈل سٹی یا مثالی شہر بنایاجائیگا، یہی خواہش ہم سب کی ہے ہم سب مل کر کوئٹہ کے میونسپل ادارے سے تعاون کریں اور اس کو ملک کا صاف ترین اور آلودگی سے پاک شہر بنائیں ۔ چیف سیکرٹری نے اس دوران یہ انکشاف کیا تھا کہ صوبائی حکومت نے کیو ایم سی کو پانچ کروڑ روپے کی مالی امداد دی ہے تاکہ وہ شہر میں صفائی کی مہم جو کبھی ختم نہ ہونے والی ہو چلائے ۔ دن رات اس کے کارکن شہر کو صاف ستھرا رکھیں اس کے لئے ضروری ہے کہ اس کام کی نگرانی کے ساتھ ساتھ سرپرستی کی جائے تاکہ بین الاقوامی طورپر کوئٹہ کی ساکھ اور مقام میں بہتری آئے۔ یہاں یہ بات افسوس کے ساتھ کہنا پڑتی ہے کہ دہائیوں کے بعد میونسپل ادارے کے ٹرک اور کارکن سڑکیں صاف کرتے نظر آئے ۔ نکاسی آب کا نظام تباہ ہوچکا ہے، آئے دن شہر کے وسط میں گٹر ابلتے رہتے ہیں اور میونسپل حکمران اپنی سیاست چمکاتے پھرتے ہیں ۔ اپنے سیاسی کارکنوں کے لئے روزگار تلاش کرتے رہے اور شہر کے مسائل پر کبھی توجہ نہیں دی جب ان سے کہا جاتا تو ایک جواب تمام سرکاری اہلکار دیتے ہیں کہ ہمارے پاس فنڈز نہیں ہیں سیاسی کارکنوں میں یہ بات مشہور ہے اور افسران فنڈز کا مطالبہ اس لئے نہیں کرتے کہ وہ کام کریں بلکہ اس لئے کرتے ہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ حصہ کھائیں اور ہضم کریں اس تاثر کے بعد جو بھی ادارہ یا سرکاری اہلکار فنڈ کا مطالبہ کرتا ہے اس کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے خصوصاًباشعور سیاسی کارکن ، ورنہ ہر شخص اپنی ڈیوٹی ادا کرے اپنے فرائض ایمانداری سے انجام دے اور جب لوگ گواہی دیں کہ وہ لوگ ایمانداری سے کام کررہے ہیں تو کسی شک کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ لوگ بھی اس کی حمایت کریں گے کہ کوئٹہ کو صاف رکھنے کے لئے مزید فنڈ زدئیے جائیں ۔ مگر حالیہ مہینوں میں یہ دیکھا گیا تھا کہ گٹر ابل رہے ہیں سڑکوں پر بدبو پھیلی ہوئی ہے جس کی وجہ سے پوری کی پوری آبادی میں وبائیں پھیلنے کا خطرہ ہے مگر کیو ایم سی کا کوئی اہلکار نظر نہیں آتا کہ گٹر لائن کو صاف کرے تاکہ گٹر نہ ابلے اور سڑکوں پر گندا پانی نہ آئے ۔یہ مسئلہ گزشتہ کئی دہائیوں سے کوئٹہ کو درپیش ہے بلکہ اس کا براہ راست ٹارگٹ سول سیکرٹریٹ اور سول ہسپتال ہیں جہاں روزانہ گٹر کا پانی ابلتا ہوا نظر آتا ہے اور بیماریاں پھیلاتا رہتا ہے ۔دہائیوں بعد صفائی کے کارکن نظر آئے جو نالیاں صاف کررہے تھے نالیوں کے اندر سے کیچڑ نکال کر سڑکوں کے کنارے ڈل رہے تھے ہم نے یہ منظر اپنی آنکھوں سے دہائیوں بعد دیکھا اس لئے ہم اس کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ کوئٹہ کی آدھی آبادی سریاب روڈ کے اطراف رہتی ہے ۔ یہ سڑک پندرہ میل طویل ہے اور گنجان آبادی کے علاقے میں واقع ہے ۔ آدھے شہر کو سیوریج کی سہولیات فراہم نہیں ہیں صوبے کا سالانہ ترقیاتی بجٹ 54ارب روپے غائب ہوجاتا ہے، اس کے منصوبے اور کام بلوچستان کے کسی حصے میں نظر نہیں آتے۔ کوئی وزیر یا یم پی اے کسی ایک ترقیاتی منصوبہ کی نشاندہی نہیں کر سکتا کہ اس سے عوام الناس کو فائدہ ہوا ہے یا صوبائی حکومت کی آمدنی میں اضافہ ہوا ہے نیز ہزاروں نہیں بلکہ سینکڑوں لوگوں کو روزگار ملا ہے ۔ سریاب روڈ کے گنجان آباد علاقوں میں معیاری سیوریج کا نظام قائم کیا جائے تو اس سے اچھی خدمت کوئٹہ کی نہیں ہو سکتی اور اس کے ساتھ گندے پانی کے دوبارہ استعمال کا نظام قائم کیاجائے جو ایران کے ہر شہر اور بڑے قصبہ میں موجود ہے اور کامیابی سے کام کررہا ہے ۔