|

وقتِ اشاعت :   April 13 – 2016

ذریعہ معاش ہمیشہ سے انسان کی اولین ترجیح رہی ہے۔ معاش کے حصول کے لئے انسانوں نے ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل مکانی کا راستہ اپنا یا ہے۔ کراچی کی لاکھوں والی آبادی اب کروڑوں میں حساب کی جاتی ہے اسکی بنیادی وجہ ہی یہی ہے کہ لوگ دیہاتوں سے شہروں کی طرف معاش کے حصول کے لئے منتقل ہو گئے ہیں جہاں انکا روزگار وہیں بود و باش ۔ کون اپنی بچپن کی یادوں کو چھوڑ کر شہر جانا چاہتا ہے۔ دیہاتوں میں روزگار کے مواقع موجود ہی نہیں اور شہروں میں کاروبار ی ذرائع کے ساتھ ساتھ روزگار کے وسیع مواقع موجود ہیں۔ بلوچستان میں روزگار کا انحصار کھیتی باڑی، غلہ بانی اور ٹرانسپورٹیشن پر ہے یاپھر حکومت کی جانب سے چھوٹے پیمانے پر مہیا کردہ وہ ملازمتیں ہیں جن سے کسی گھر کا چراغ جلتا ہے۔ تعلیمی مواقع کم ہونے کی صورت میں لوگ روزگار کے حصول کے لئے خلیجی ممالک کا رخ کرکے مزدوری پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ بلوچستان جہاں ایک دہائی سے جنگ کا سماں ہے تو وہیں موسمیاتی تبدیلی سے کم بارشوں نے یہاں کے مکینوں سے انکے روزگار کے ذرائع چھین لئے۔ قدرتی آفات، جنگ و جدل نے لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کر دیا اور اس طرح لوگ لسبیلہ کا رخ کر گئے ، کراچی یا پھر کوئٹہ۔ ایک خطہ جہاں لوگوں کا ذریعہ معاش تباہ ہوجائے اور پرائیوٹ سیکٹر کا وجود ہی نہ ہوتو نوجوان طبقہ حکومت سے امید رکھتا ہے کہ ان کے لئے روزگار کے وسیع ذرائع پیدا کئے جائیں تاکہ انکی زندگی میں خوشحالی آئے۔ 2013کو وجود میں آنے والی بلوچستانی حکومت تاحال ایسا بڑا اقدام اٹھانے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے جس سے یہ تاثر ملے کہ وہ نوجوانوں کے اندر چھائی ہوئی مایوسی کو دور کرنے کے لئے کوشاں ہے۔خود نیشنل پارٹی کے رکن قومی اسمبلی سردار کمال خان بنگلزئی نے اپنے گزشتہ اخباری بیان میں اس بات کا برملا اظہار کیا تھا کہ وفاقی سطح پر بلوچستان کے مختص کردہ ملازمتوں کا 6فیصد کوٹہ ناانصافی ہے اور دوسری جانب انہوں نے ایک اہم بات کی نشاندہی بھی کی کہ اسی کوٹے پر جعلی ڈومیسائل والے افراد کو تعینات کیا جاتا ہے۔ جس سے کئی سوال جنم لیتے ہیں کہ آیا انکی آواز وہاں سنی نہیں جاتی یا وہ اس پر کبھی آواز ہی نہیں اٹھاتے۔ اگر جعلی ڈومیسائل کے ذریعے وہاں تعیناتیاں عمل میں لائی جاتی ہیں تو ابھی تک اسکی تحقیقات کا حکم کیوں نہیں دیا گیا کہ بلوچستان کے بے روزگار نوجوان جنہیں احساس محرومی کھائے جاتی ہے اور روزگار کے مواقع کوئی اور اٹھا لے جاتا ہے۔ ابھی بھی خود نیشنل پارٹی ایک حکومتی اتحادی کے طور پر بلوچستان اسمبلی میں موجود ہے تو انکی جانب سے اس معاملے کو ایوان میں کیوں نہیں اٹھایا جاتا۔ بلکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ اسکی مکمل تحقیقات ہونی چاہئے کہ اب تک وفاقی ملازمتوں پر بلوچستان کے کوٹے پر تعینات ہونے والے ایسے کتنے غیر بلوچستانی ہیں جنہیں جعلی ڈومیسائل کے ذریعے بلوچستان کے نوجوانوں کے روزگار پر شب خون مارنے کی اجازت دے دی گئی ہے اور اس میں کون کون سے عوامل شامل ہیں جنکا تدارک ضروری ہے۔ جب تک ان عوامل کا سدباب نہیں کیا جاتا تو یہ کیسے باور کیا جا سکتا ہے کہ گوادر کی ترقیاتی پراجیکٹس میں یہاں کے نوجوانوں کو روزگار کے مواقع ملیں گے جو کئی سالوں سے روزگار نہ ہونے کا رونا روتے چلے آرہے ہیں۔ یہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ جہاں نوجوانوں کو روزگار کے مواقع ہاتھ نہیں آتے تو وہاں خالی دماغ بھٹک بھی جاتے ہیں کہ جسکا بعد میں خمیازہ بھگتنا ہی پڑتا ہے۔ خود بلوچستان حکومت نے جب سال 2015-16 کا بجٹ پیش کیا تو اس میں اس بات کا اعلان کیا گیا کہ بلوچستان میں 5ہزار نئی آسامیاں پیدا کی جائیں گی۔ بلوچستان میں بیروگار نوجوانوں کی جو شرح ہے اول تو 5ہزار آسامیاں انکے لئے ناکافی سمجھی جا رہی تھیں تو دوسری یہ کہ موجودہ حکومت سال 2016-17کا بجٹ دو ماہ بعد پیش کرنے والا ہے وہ آسامیاں جنکا اعلان پچھلے بجٹ میں کیا جا چکا ہے اب تک ان آسامیوں کو پر کرنے کے لئے خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائے گئے اور سینکڑوں آسامیاں وہ ہیں جنکا اعلان 2014ء میں اخبارات میں اشتہارات کے ذریعے کیا جا چکا تھاکئی بار ٹیسٹ و انٹرویوز کے اعلانات کا ذکر اخبار ات میں آچکا ہے لیکن ہر بار انکی منسوخی کا اعلان کیا جاتا رہا ہے۔ بھلا ہو ان اداروں کا، ان اشتہارات سے اگر کسی کو فائدہ ہو یا نہ ہو اخبارات کو ان اشتہارات کی مد میں فائدہ ضرور ہوا ہوگا۔ محکمہ صحت میں بلوچستان کے تمام اضلاع کی سینکڑوں خالی آسامیاں موجود ہیں جنہیں پر کرنے کے لئے امیدواروں سے ٹیسٹ لئے جا چکے ہیں لیکن ان پر تعیناتی کا عمل روک دیا گیا ہے۔ اسی طرح ادارہ S&GAD، خزانہ، کھیل، لائیو اسٹاک، صنعت و حرفت، منرل اینڈ مائنزسمیت متعدد ادارے ایسے ہیں جنکی خالی آسامیاں افرادی قوت کو ترستی ہیں۔ لیکن حکومتی ادارے سست روی کا مظاہرہ کر رہے ہیں ان آسامیوں کو پر کرنے سے نہ صرف بے روزگاری میں کمی آسکتی تھی بلکہ اسکے ساتھ ساتھ اداروں کو فعال کرنے کا موقع بھی ملتا وہ اب تک دیکھنے کو نہیں آیا۔ایک اور بات یہاں پر یہ بھی کہی جا رہی ہے کہ اب تک تعیناتیوں پر عملدرآمد نہ کرانے کی سب سے بڑی وجہ وزراء، سیکرٹریز اور کمیٹیوں کی آپس میں بندربانٹ اور ملازمتوں میں اپنے حصے کی رسہ کشی ہے۔ جسے ملحوظ خاطررکھ کر اب تک تعیناتیوں میں پس و پیش سے کام لیا جا رہا ہے۔ خود S&GADکی آسامیاں جو پیپلز پارٹی دور حکومت میں خالی تھیں انہی وجوہ کی بناء پر تاحال تعیناتی کا عمل لایا نہیں جا سکا ہے۔ بلوچستان میں سابقہ دور حکومت میں یہ الزامات بھی سامنے آئے تھے کہ یہی خالی آسامیاں بھاری رقوم کے عوض بیچ دیئے گئے تھے۔ اسی طرح کے الزامات بلوچستان پبلک سروس کمیشن کے سابق چیئرمین پر بھی لگائے گئے تھے کہ اس کے دور میں میرٹ کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی گئیں تھیں اور بھاری رقوم کے عوض ملازمتیں بیچی گئی تھیں۔بلوچستان میں روزگار کی فراہمی کے لئے اگر حکومتی اقدامات پر نظر دوڑائی جائے تو اب تک صرف ایجوکیشن کی حد تک اس نے فراخ دلی کا مظاہرہ کیا ہے جو کہ خوش آئند ہے۔سابق وزیر اعلیٰ ڈ اکٹر عبدالمالک بلوچ کی حکومت نے اہم اقدامات کے طور پربلوچستان پبلک سروس کمیشن کے موجودہ چیئر مین کیلاش ناتھ کوہلی کی تعیناتی عمل میں لاکر نہ صرف میرٹ کی فضاء کو بحال کیا ہے بلکہ میرٹ کی بنیاد پر مختلف ڈیپارٹمنٹس کی گریڈ 16سے اوپر کے امیدواروں کی تعیناتی عمل میں لائی جسکی دیکھا دیکھی نوجوانوں میں اعتماد کا فضاء بحال ہوا ہے اور وہ ان امتحانات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ اللہ کرے یہ سلسلہ بحال رہے۔ بلوچستان کی یونیورسٹیوں سے بڑی تعداد میں فارغ ہونے والے وہ طلباء جو کہ ماسٹر کی ڈگری ہاتھوں میں تھامے اور ہزاروں کی تعدا د میں بیروزگار نوجوان جنہوں نے روزگار کی امید پر پرائیوٹ ماسٹر ڈگری حاصل کئے ہیں یہ آس لگائے بیٹھے ہیں کہ انہیں کب کوئی روزگار ہاتھ آجائے۔پھر اتنی بڑی کپت میں فارغ التحصیل نوجوانوں کے لئے حکومت کے پاس روزگار پیدا کرنے کا کوئی منصوبہ موجود نہیں جو انہیں اس انتظار سے چھٹکارا دلائے۔ وہ اپنی جوانی کا بہترین دور اس خواہش پر گزار دیتے ہیں کہ آج نہیں تو کل بارانِ رحمت ضرور برسے گا لیکن ایسا ہوتا نہیں۔ بلوچستان میں جہاں ایک اہم عنصر نے انسرجنسی کو بڑھاوا دینے میں مدد کی وہ تھی نوجوانوں کے لئے مواقع کا فقدان۔ بلوچستان میں جہاں آج سیکورٹی کے نام پر لاکھوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں اگر یہی رقم نوجوانوں کے لئے روزگار کی فراہمی اور بلوچستان میں تعلیمی بہتری کے لئے خرچ کئے جاتے تو یقیناًآج حالات اس ڈگر پر نہیں پہنچ پاتے۔ گوادر میں جہاں وسیع پیمانے پر ترقیاتی کاموں کا شور وغوغا ہے ،اب دیکھنا یہی ہے کہ اس میں بلوچستان کے نوجوانوں کی کس قدر شمولیت کو ممکن بنا کر اعتماد کی فضاء قائم کرنے کی کوشش کی جائیگی۔