|

وقتِ اشاعت :   April 17 – 2016

ملک کی تاریخ سیاسی بحرانوں سے ہمیشہ دوچار رہی ہے‘ اندرونی یا بیرونی معاملات دونوں کی وجہ سے پاکستان میں سیاست اور معیشت تنزلی کا شکار رہی ہے‘ اصل محرکات سیاسی ہی ہوتے ہیں جب تک سیاسی حوالے سے اندرونی طور پر مضبوط حکومت نہیں ہوتی تو اس کے اثرات جمہوریت پر برائے راست پڑتے ہیں جس کی تاریخ ہمارے یہاں واضح ہے‘ ملک میں بیرونی مداخلت کا معاملہ معمولی نہیں بلکہ انتہائی سنجیدہ ہے جس سے نہ صرف ملک اندرونی طور پر کمزور رہ جاتا ہے بلکہ جو ممالک ملوث ہوتے ہیں ان کے ساتھ تعلقات بھی خراب ہوجاتے ہیں اور یہ وہ اسباب بنتے ہیں جو ملک کوانتشار کی طرف دھکیل دیتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں سیاسی جماعتیں ہمیشہ اختلافات کا شکار رہی ہیں‘اقتدار کے حصول کی جدوجہد ہمارے یہاں اولین ترجیحات میں شامل رہی ہے جبکہ اپوزیشن کا کردار ہمیشہ ہی کمزور رہا ہے‘ حالیہ سیاسی تناظر کا جائزہ لیاجائے تو ماضی سے کچھ الگ نہیں۔ملک کی تاریخ میں سب سے بڑا سانحہ سقوط ڈھاکہ رہا جس کی وجہ بھی سیاسی معاملات ر ہے ہیں جس سے کوئی ذی شعور انسان انکار نہیں کرسکتا بلکہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں سمیت مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات اسے سیاسی غلطی قرار دیتے ہیں اور پھر اسے بیرونی معاملے کی طرف لے جاتے ہیں مگر درحقیقت یہ ہماری اندرونی کمزوریاں تھیں جن کو حل کرنے کے بہت سے مواقع تھے مگر اقتدار کی کرسی اپنی طرف کھینچنے کی اس کوشش نے ملک کو دولخت کردیاجس کا زخم آج تک نہیں مندمل نہیں ہوسکا۔ آج بھی خبر وں کی شہہ سرخیاں پڑوسی ممالک کی انٹیلی جنس کے مداخلت کے حوالے سے ملتی ہیں مگر ان تمام صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے پہلے اندرونی طور پر سیاسی استحکام لانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ بیرونی ایجنڈوں پر ملک کے اندر موجود افراد کام نہ کرسکیں اور اس کیلئے انتہائی ضروری ہے کہ ہمارے یہاں ناراضگیوں کو سیاسی طریقے سے حل کرنے کے لیے بھرپور کوششیں کی جائیں۔ پھر اس کے بعد پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتری کی نہج پر لائیں کیونکہ جنگ ہمیشہ انارکی اور انتشار کو جنم دیتا ہے اور بہت بڑی تباہی اپنے ساتھ لاتی ہے جو آج ہمیں مختلف ممالک میں دکھائی دے رہا ہے۔ بہرحال ہمارے یہاں حالات قدرے بہتر ہیں کہ مزید بہتری اور خوشحالی کیلئے ہمیں اپنی پالیسیوں پر غور کرنے کے ساتھ ازسرنو معاملات کو دیکھ کر بہترین پالیسی مرتب کریں تاکہ ملک میں سیاسی استحکام کو مزید مضبوط بناتے ہوئے خوشحالی کے سفر پر گامزن ہوسکیں۔ جس کی تمام تر ذمہ داری پہلے حکمران جماعت پر عائد ہوتی ہے اس کے بعد اپوزیشن جماعتیں حکومت سے ملکر معاملات کو بہتر طریقے سے آگے بڑھائیں تاکہ ہم آنے والے چیلنجز اور بحرانات کا ڈٹ کر مقابلہ کرسکیں۔اب ماضی جیسے معاملات نہیں ہیں بلکہ انتہائی گھمبیر صورتحال پیدا ہونے کا اندیشہ ہے جو کبھی بھی ملک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے پھر ماضی کی طرح پالیسیوں اور ایک دوسرے پر الزامات لگاکر اس سے نکلنا مشکل ہوجائے گا کیونکہ ملک میں امن اور خوشحالی لانے کی ذمہ داری تمام سیاسی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے اور وہ بہترین قانون سازی کرتے ہوئے عوام کی تقدیر بدلنے کے ساتھ بیرونی مداخلت کی روک تھام اور بہترین تعلقات کو ترجیح دیں جس سے ہم ترقی یافتہ ممالک کی دوڑ میں شامل ہوسکیں وگرنہ غلطی پر غلطی کرنے سے مزید بگاڑ پیدا ہوگا جس کا متحمل آج ملک نہیں ہوسکتاسب سے پہلے عوامی ترجیحات کو مد نظر رکھا جائے تاکہ عوام کا اعتماد سیاسی جماعتوں پر بڑھے اور مایوسی سے نکل کر وہ ملک کی ترقی میں اپنا مثبت کردار ادا کرسکیں۔