افغانستان میں بادشاہت کے خاتمے کے بعد لاکھوں افغانوں نے پاکستان کا رخ کیا اس کی بنیادی وجہ وفاقی حکومت کی خارجہ پالیسی تھی اور اس وقت پی پی پی کی حکومت نے نئے افغان حکومت جس کی سربراہی سردار داؤد کررہے تھے کی مخالفت کی تھی بلکہ اس کے خلاف زبردست میڈیا جنگ شروع کی تھی ۔ذوالفقار علی بھٹو سرحدی علاقوں میں جا کر افغانستان کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر کرتے رہے اور امریکا کو خوش کرنے کی کوشش کی کیونکہ سردار داؤد حکومت کی پشت پناہی روس نواز فوجی افسران کررہے تھے دراصل یہی وہ مقام ہے جہاں سے افغانستان کی خانہ جنگی شروع ہوئی۔ افغانستان سے آئے تمام سیاسی رہنماؤں کو حکومت پاکستان نے پناہ دی دوسرے الفاظ میں وفاقی حکومت نے افغان غیر قانونی تارکین وطن کو خوش آمدید کہا اور ان کو ہر طرح کی سہولیات فراہم کیں ۔ جب کابل میں دوسرا انقلاب آیا اور سردار داؤد کو قتل کیا گیا تو صاف اور واضح طورپر افغان حکومت پر افغان قوم پرست اور ترقی پسند عناصر کا براہ راست قبضہ ہوگیا اور کیمونسٹ پارٹی کے سربراہ افغان کے سربراہ بن گئے اس کے بعد افغان خانہ جنگی میں شدت اس وقت آگئی جب امریکا کی سرپرستی میں افغانستان کے خلاف محاذ بنا لیا ۔ راتوں رات ہزاروں کی تعداد میں بلوچستان میں دینی مدارس قائم کیے گئے اور ان کی مالی امداد امریکا اور سعودی رہنمائی میں گلف کے ممالک نے کی ۔ آج تک ہزاروں مدارس کام کررہے ہیں اور ان میں لاکھوں طالب علم ہیں جن کو رہنا سہنا ، کھانا پینا ، کپڑے اور دوسری تمام تر سہولیات مفت فراہم کی جارہی ہیں جبکہ سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کو بھی باقاعدگی کے ساتھ تنخواہ نہیں مل رہی ،سرکاری اسکولوں کے طلباء کو چھوڑئیے۔ اس لئے لاکھوں کی تعداد میں افغان بلوچستان اور پاکستان کے دوسرے حصوں میں آئے بچوں نے مفت تعلیم کا خوب فائدہ اٹھایا اب اقوام متحدہ اسی بنیاد پر یہ مطالبہ کررہا ہے کہ تیس سال سے زائد رہنے والے تمام افغانوں کو اب پاکستان کی شہریت دی جائے ان کو اپنے وطن واپس نہ بھیجا جائے اقوام متحدہ اور مغربی ممالک کا دباؤ حکومت پاکستان پر برابر بڑھ رہا ہے کہ افغانوں کو اپنے ملک واپس نہ بھیجا جائے اور ان کو پاکستانی شہریت دی جائے حکومت پاکستان اور ملک کے عوام اس کے خلاف ہیں اور ہر حال میں ان کو اپنے وطن واپس بھیجنا چاہتے ہیں ۔ کب ان کو واپس بھیجاجائے گا یہ کوئی نہیں جانتا ۔ اس دوران مفاد پرست عناصر اس مسئلے میں کود گئے اور انہوں نے جعلی تصدیق کرکے لاکھوں افغان تارکین وطن کو پاکستانی شناختی کارڈ ، پاکستانی پاسپورٹ اور دوسرے پاکستانی دستاویزات دلا دئیے ۔ اب اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ وہ پاکستانی شہری ہیں ۔ بعض افغان غیر قانونی تارکین وطن ان جعلی دستاویزات کی بناء پر اعلیٰ ترین سرکاری عہدوں پر فائز ہیں ۔ ان سب کے خلاف کارروائی ہونی چائیے جنہوں نے جعلی دستاویزات سے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ حاصل کیے اور ان لوگوں کے خلاف ضرور کارروائی ہونی چائیے جنہوں نے غیر قانونی افغان تارکین وطن کے دستاویزات کی تصدیق کی اور ریاست پاکستان کو دھوکہ دیا۔
ہم وزیرداخلہ کے اس موقف سے متفق ہیں کہ ان تمام لوگوں کو نہ صرف گرفتار کیا جائے بلکہ ان کو سخت سزائیں دی جائیں جنہوں نے افغان تارکین وطن کو جعل سازی کے ذریعے پاکستانی شہریت دی اور ان کو جعلی دستاویزات کی بناء پر شناختی کارڈ جاری کیے ۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ ایک لاکھ کے قریب ایسے شناختی کارڈ بلاک کیے جاچکے ہیں۔ وفاقی حکومت ان تمام لوگوں کا پتہ لگائے اور ان سب کو گرفتار کرے اور عدالتوں میں سزاؤں کے بعد ان سب کو ملک بدر کیاجائے بلکہ ان لوگوں کو بھی گرفتار کیا جائے جنہوں نے رشوت لے کر شناختی کارڈ افغان تارکین وطن کو جاری کیے اور ان کو بھی جنہوں نے ان جعلی دستاویزات کی تصدیق کی ۔ بنیادی فیصلہ یہ ہے کہ افغان تارکین وطن کو جلد سے جلد پاکستان سے نکالا جائے ۔اگر افغانستان کی حکومت ان کو واپس قبول کرنے کو تیار نہیں تو اقوام متحدہ افغانستان کے سرحدوں کے اندر مہاجرین کے کیمپ قائم کرے اوران افغانوں کو وہاں رکھے تاوقتیکہ وہ اپنے گھروں کو اپنی مرضی سے نہ چلے جائیں ۔