|

وقتِ اشاعت :   April 19 – 2016

جی آپ کہاں سے آئے ہیں کس سے ملنا ہے؟ بس وہ صاحب سے کام تھا۔ صاحب گئے ہوئے ہیں کسی میٹنگ میں آپ بعد میں آجائیے گا۔۔ اسسٹنٹ نے سوالی کو بے زاری میں جواب دیتے ہوئے کہا۔بیچارہ سوالی باہر بیٹھا کافی انتظار کرتا رہا اور صاحب کے بلند و بانگ قہقہے انکے کانوں سے ٹکرا تے رہے۔ بس بے بسی کا عالم تھا اسے صاحب تک پہنچنے کا راستہ نہیں ملا۔ اس دورانقیمتی ملبوسات پہنے اور خوشبو سے مزین کئی افراد پوچھے بغیر صاحب سے ملنے آفس کے اندر گئے ۔ بس بیچارے بوڑھے شخص کے لئے قانونی راستے آڑے آگئے ۔ میرا دوست کہتا ہے ایک رات کراچی کی سڑکوں پر ڈرائیو کر رہا تھا راستہ خالی تھا لیکن سگنل کی سرخ بتی کا احترام کرتے ہوئے میں رکا تو دور سے پولیس اہلکار سینہ تھان کر میرے پاس آگیا کہ گاڑی کے کاغذات دکھاؤ۔ گاڑی کے کاغذات دکھانے کے بعد میں نے اس کی شرمندگی کے لئے بس اتنی سی بات کہہ ڈالی کہ بہتر تو یہی تھا کہ میں اس سگنل پر نہیں رکتا ورنہ یہاں قانون کو فالو کرنے والے بے وقوف اور احمق ہی سمجھے جاتے ہیں۔ میرے ایک اور دوست آج کل گورنمنٹ کی نئی ملازمت حاصل کرنے کے بعد روزانہ اے جی(اکاؤنٹنٹ جنرل) آفس کا چکر لگاتے رہتے ہیں۔ تو روز مایوسی کا عالم اسکے چہرے پر عیاں دیکھتا ہوں۔ ارے بھائی تمہارے بیروزگاری کے دن ہی اچھے تھے جب تمھارے چہرے پر سکون تھا اب تو پریشانی نے تمہارے چہرے کا سکون ہی چھین لیا ہے ۔دوست کہتا ہے یار بس مت پوچھو اے جی آفس والوں نے ذلیل کیا ہے، بھاری بھر کم رقم مانگتے ہیں۔ ارے بھائی رقم کس بات کی؟ میں نے پوچھا۔ پتہ نہیں، میں آج خود ہی 10ہزار روپے دیکر آیا ہوں۔ ورنہ میری فائل ہی غائب کر دیتے۔ دوست کہتا ہے کہ میرے سامنے کسی بندے نے کلرک کو پیسے دینے کے لئے اس کی ٹیبل کے نیچے رشوت کا رقم رکھ دیا تو کلرک نے برا منایا کہ کیا ہم یہاں بھیک مانگتے ہیں۔ سب کے سامنے پیسے دو۔ بس کیا تھا کہ اسے رشوت لینے والے کو شرمندگی کے ساتھ پیسے دینے پڑ ے۔ میرا دوست اپنے ہاتھ دونوں کانوں تک لے جاکر ان سے پناہ مانگتا ہے لیکن اب کیا کرے انکا واسطہ انہی سے پڑتا ہے۔ تو یہ معاملہ اب دوست کو سہنا ہی پڑے گا۔ ایسے ہی حالات کا سامنا پاسپورٹ کے لئے اپلائی کرنے والے یہاں کے شہریوں کو کرنا پڑتا ہے ۔ ایسا ہی واقعہ خود میرے ساتھ پیش آیا۔ دو سال تک پاسپورٹ آفس کوئٹہ کا چکر لگاتا رہا پاسپورٹ بھی نہ بنا ساتھ میں پیسے بھی ضائع ہوگئے تب جا کر اسلام آباد سے ہی بنوانا پڑا۔ اندر پورا نظام گند ہے باہر انکے بندے بیٹھے ہوئے ہیں جو لوگوں سے صاحب کے حصے کا پیسہ وصول کرتے ہیں۔سوچتا ہوں کہ کہاں گیا اسلامی نظام جو کہتا ہے ’’رشوت لینے اور دینے والے دونوں جہنمی ہیں‘‘ اگر اسطرح سے ہے تو مجھے نہیں لگتا کہ اس نظام کے اندر رہتے ہوئے جہنم کی اس آگ سے کوئی محفوظ رہ سکے۔ایک شخص کہتا ہے کہ ایک دن مجھے دفتری کام کے سلسلے میں کہیں جانے کا اتفاق ہوا تومیں نے خلاف توقع صبح وقتی اس دفتر کا رخ کیا۔دفترپہنچنے پر معلوم ہوا کہ جناب والا کا کرسی تو کافی ٹائم سے اسکا منتظر ہے۔بس کیا تھا مجھے انتظار ہی کرنا پڑاخدا خدا کرکے چار گھنٹے بعد جناب والا نے اپنی ذمہ داری سنبھالی، ہم میں سے کوئی بھی یہ پوچھنے کی جسارت نہ کر سکا کہیں صاحب کی غیض و غضب کا سامنا نہ کرنا پڑے۔کام سے فارغ ہونے کے بعد مجھے بچوں کو اسکول سے اٹھانے کے لئے اسکول کا رخ کرنا تھا۔ جب اسکول پہنچا تو اسکول میں ایک گھنٹے پہلے چھٹی ہو چکی تھی اب میری پریشانی کا حال خدا جانتا تھا۔ بس ہانپتے کانپتے گھرپہنچا تو بیوی کی ڈانٹ پہلے سے میری منتظر تھی۔ عجیب و غریب تماشے ہوتے ہیں۔ وقت کی پابندی نہ بابا۔وقت کی پابندی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بس یوں سمجھو کہ وقت کی قدر ہی نہیں رہا۔ اب ایک شخص کی وجہ سے پورا نظام کس طرح متاثر ہوتا ہے۔ یہ شاذ و نادر کسی کی سمجھ میں آجائے۔ بھئی اعلان کیا جاتا ہے کہ فلاں پروگرام ٹھیک اس وقت شروع ہوگا تو میں جلدی کرتا ہوں تو میرے دوست کہتے ہیں کہ بھئی یہ پاکستان ہے یہاں وقت پر جانا بیوقوفی کے سوا کچھ نہیں اگر کوئی آپکو بیوقوف کہے یا نہ کہے البتہ منتظمین آپکو اس لقب سے ضرور نوازیں گے۔ اور واقعی مقررہ وقت پر پہنچ جانے پر آپکو نہ منتظمین ملیں گے اور نہ ہی انتظامات۔ خود تو اپنے وقت کی نہ پروا اور نہ ہی دوسروں کے وقت سے سروکار۔ بس یوں لگتا ہے کہ ہم سب یہاں داستانِ الم ہیں۔ بس دکھڑے ہیں ایک دوسرے کو سنانے کے لئے۔ نہ وقت کی قدر یہاں نہ قانون کے فالور اور نہ ہی رشوت ستانی سے باز آنے کا فارمولا۔ مشرف کے دور حکومت میں قائم نیب تاحال کرپشن کے نظام کو یہاں سے ختم نہ کر سکی۔ اب بھی کرپشن ہی کرپشن۔ چاہے وہ کرپشن وقت کا ہو۔ چاہے وہ رشوت لینے کا یا کسی بڑے سرکاری ادارے میں بڑے غبن کا کوئی کیس۔ سب کے تانے بانے ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں۔ اب اے جی آفس والے کو کون سمجھائے کہ بھئی آپکو یہاں بٹھانے کے لئے حکومت ہی پیسے دیتی ہے۔ بوڑھے شخص کو کون سمجھائے کہ یہاں غریب کے لئے سرکاری دروازے الگ ہیں تو امیر اور بااثر کے لئے الگ۔ میرے دوست کو کون سمجھائے کہ یہاں قانون کو فالو کرنے والے کو بیوقوف ہی سمجھا جاتا ہے۔میرے دوسرے دوست کو بشمول میرے کون سمجھائے کہ یہاں وقت اتنا قیمتی نہیں ہوتا تو بھلے کیا درد سر کہ بس وقت پر ہی پہنچنا ہو۔ میرے دوست اب اس بات سے متفق ضرور ہیں کہ یہاں اب یہ چیزیں معاشرتی اخلاقیات کا حصہ بن چکے ہیں ہمیں انکو اپنی زندگی سے جوڑ کر رکھنے کی ضرورت ہے وہ اس سلسلے مجھے بھی دعوت و تبلیغ کرتے رہتے ہیں۔