|

وقتِ اشاعت :   April 22 – 2016

بلوچی زبان کا شمار دنیا کی چند ایسی زبانوں میں ہوتا ہے جس میں ادبی حوالے سے بے شمار مواد موجود ہے۔ زبان کے فروغ کے لئے فوک داستان ،بلوچ زعماء ودانشور حضرات کی نادر ونایاب تحریریں اور بلوچی زبان کو دنیا میں اہم مقام دلانے اور زندہ رکھنے کے لئے ادبی لٹریچر اہم مقام رکھتا ہے۔ بلوچی زبان وادب کے لئے ہر فرد اور ادارہ اپنی اپنی کوشش میں مگن ہے۔ گوادر کے ساحلی ریت ہوں یا مکران کے تپتے صحرا کوئٹہ کی حسین وادی ہو یا بولان کی پہاڑیاں ہر سوں بلوچی زبان وادب اور ثقافت کے رنگ بکھیرے ہوئے ہیں۔ان بکھرے موتیوں کو ایک ہی لڑی میں پرونے کا بیڑہ بلوچی اکیڈمی نے اٹھایا ہے۔ اپنے قیام سے لے کر تاحال بلوچی اکیڈمی اپنی مادری زبان بلوچی کے نایاب ہیروں کو ایک ہی لڑی میں پرو رہا ہے۔ آج دنیا میں بلوچی اکیڈمی کا ایک منفرد مقام ہے۔ بلوچستان ہو یا بلوچستان سے باہر بلوچی اکیڈمی نے ہر فورم پر بلوچی زبان کے فروغ کے لئے بیش بہا خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ بلوچ قوم کے جن فرزندوں نے بلوچی اکیڈمی کی بنیاد رکھی۔ ان کا یہ تحفہ بلوچی اکیڈمی کی صورت میں بلوچ قوم پر ایک عظیم احسان ہے۔ عبدالواحد بندیگ ہو ںیا دانشور جان محمد دشتی ٗمعروف صحافی صدیق بلوچ سمیت دیگر بلوچ دانشور جنہوں نے بلوچی اکیڈمی کے قیام میں کوئی نہ کوئی کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے آج کی نوجوان نسل اور اپنے آنے والی نسلوں کو ایک ایسا پلیٹ فارم عطا کیا کہ بلوچ قوم اور بلوچی زبان کی شناخت کو دنیا میں قائم ودائم رکھا جا سکے۔ اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنے بزرگوں کی اس امانت کو سنبھال کر رکھیں اور بلوچی زبان وادب کی خدمت کریں۔ بلوچ تاریخ دان ٗ شاعر افسانہ نویس وناول نگار کے بے شمار کتب کو بلوچی ادب کی زینت بنانے میں اکیڈمی نے ہر اول دستے کا کردار ادا کیا ہے۔ میر گل خان نصیر ٗ عطا شاد ٗ آغا نصیر احمد زئی ٗ ملک سعید دہوار مولائی شیدائی اور بہت سے دیگر بلوچ دانشور شاعر اور ادیبوں کے نام کو تاابد زندہ رکھنے کے لئے بلوچی اکیڈمی ہر لمحہ کوشاں ہے۔ آج بلوچستان کا ہر بلوچ فرزند بلوچی اکیڈمی کا حصہ بننے میں فخر محسوس کر تا ہے۔ بلوچی اکیڈمی ہر اہم موقع پر سمینارز کا انعقاد کرتی ہے تاکہ بلوچ قوم کو اپنی زبان وادب سے آگاہی حاصل ہو۔ بلوچی اکیڈمی کے جنر ل سیکرٹری محمد پناہ بلوچ نے اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر بلوچی اکیڈمی کو علم وادب کی دنیا کا ایک جگمگاتا ستارہ بنایا ہے۔ گزشتہ سال بلوچی اکیڈمی نے بیش بہا تصانیف شائع کی ہیں۔ جن میں جان محمد دشتی کی بلوچی ڈکشنری بلوچی لبزبلد کا شمار بہترین تصانیف میں شامل ہے۔ یہ ڈکشنری جان محمد دشتی کی کئی سالوں پر مشتمل محنت او رکوشش سے وجود میں آئی تو اکیڈمی نے اس کی اشاعت کا بیڑہ اٹھایا اور نہایت ہی مناسب قیمت پر قارئین کی دسترس تک پہنچا دیا۔ اس کے علاوہ بلوچی کے نامور شاعر اور مورخ میر گل خان نصیر کے کلیات اور بلوچستان کے صف اول کے شاعر عطا شاد کے کلیات بھی شائع کرنے کا اعزاز بلوچی اکیڈمی کو حاصل ہے۔ اس کے علاوہ تاریخ اور دیگر موضوعات پر نایاب کتابیں دوبارہ شائع کرکے بلوچ طلباء اور ریسرچ اسکالرز کے لئے مہیا کردی گئی ہیں۔ آج بلوچی اکیڈمی کی وجہ سے بلوچی زبان وادب کو بہت سے نئے لکھاری اور خدمت گار بھی میسر ہیں۔ کیونکہ اکیڈمی کے جذبہ خدمت نے ان کو ایک ایسا پلیٹ فارم عطا کیا کہ وہ بھی اپنی زبان کی خدمت کے لئے اپنی خدمات پیش کر رہے ہیں۔ آج دنیا ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے۔ ہر ادارہ اور فرد صرف پیسے کمانا چاہتا ہے۔ مگر بلوچی اکیڈمی نے پیسے کمانے کی بجائے قوم اور زبان کی خدمت کو اہمیت دی۔ اکیڈمی کی کتب نہایت ہی مناسب قیمت پر بلوچ قارئین کی دسترس میں ہیں۔ طلبا کو تو خصوصی طو رپر آدھی قیمت پر کتب فراہم کی جاتی ہیں تاکہ ان کی کتب بینی کا شوق ماند نہ پڑ جائے۔ حال ہی میں اکیڈمی کی طرف سے بلوچستان کے تمام سرکاری اور غیر سرکاری لائبریوں کو مفت کتب فراہم کرنے کاسلسلہ بھی شروع ہوا ہے۔اس سلسلے میں اکیڈمی نے باقاعدہ طور پر ایک اشتہار مختلف اخبارات میں دیا تاکہ دور دراز کے علاقوں میں قائم لائبریری بلوچی لٹریچر کی کتب مفت حاصل کرکے اپنے قارئین کی خدمت کریں۔زبان وادب کی ایسی بے شمار خدمات بلوچی اکیڈمی کی جانب سے بلوچ عوام کے لئے ایک تحفہ ہیں۔ بلوچی اکیڈمی کو میں چاند سے نہیں ستاروں سے تشبیہ دوں گا کیونکہ چاند تو ڈوبتا ہے مگر ستارے صبح صادق تک چمکتے رہتے ہیں۔تاہم کبھی کبھار چاند دیر سے نکلتا ہے مگر ستارے پہلے سے چمکتے رہتے ہیں تو بلوچی اکیڈمی بھی زبان وادب کا آسمان پر ایک ستارہ ہے جو ہمیشہ چمکتا رہے گا۔ آئیں ہم سب مل کر بلوچی اکیڈمی کی ٹیم کے ہاتھ مضبوط کریں تاکہ وہ اسی جوش اور ولولے سے اکیڈمی کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرتی رہے۔